Narrated Anas bin Malik: Once there was a feeling of fright at Medina, so Allah's Apostle rode a horse belonging to Abu Talha and (on his return) he said, "We have not seen anything (fearful), but we found this horse very fast."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 212
● صحيح البخاري | 2867 | أنس بن مالك | وجدنا فرسكم هذا بحرا |
● صحيح البخاري | 2862 | أنس بن مالك | ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2857 | أنس بن مالك | ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2627 | أنس بن مالك | استعار النبي فرسا من أبي طلحة يقال له المندوب فركب فلما رجع قال ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2866 | أنس بن مالك | على فرس عري ما عليه سرج في عنقه سيف |
● صحيح البخاري | 2908 | أنس بن مالك | لم تراعوا لم تراعوا ثم قال وجدناه بحرا أو قال إنه لبحر |
● صحيح البخاري | 6033 | أنس بن مالك | لن تراعوا لن تراعوا وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج في عنقه سيف فقال لقد وجدته بحرا أو إنه لبحر |
● صحيح البخاري | 2820 | أنس بن مالك | سبقهم على فرس وقال وجدناه بحرا |
● صحيح البخاري | 6212 | أنس بن مالك | ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 3040 | أنس بن مالك | تلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا ثم قال رسول الله وجدته بحرا يعني الفرس |
● صحيح البخاري | 2968 | أنس بن مالك | ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2969 | أنس بن مالك | لم تراعوا إنه لبحر فما سبق بعد ذلك اليوم |
● صحيح مسلم | 6006 | أنس بن مالك | أحسن الناس وكان أجود الناس وكان أشجع الناس فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق ناس قبل الصوت فتلقاهم رسول الله راجعا وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لأبي طلحة عري في عنقه السيف وهو يقول لم تراعوا لم تراعوا قال وجدناه بحرا أو إنه لبحر قال وكان فرسا يبطأ |
● صحيح مسلم | 6007 | أنس بن مالك | فزع فاستعار النبي فرسا لأبي طلحة يقال له مندوب فركبه فقال ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● جامع الترمذي | 1685 | أنس بن مالك | ما كان من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● جامع الترمذي | 1687 | أنس بن مالك | أحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس قد فزع أهل المدينة ليلة سمعوا صوتا قال فتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا فقال النبي وجدته بحرا |
● جامع الترمذي | 1686 | أنس بن مالك | ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● سنن أبي داود | 4988 | أنس بن مالك | ما رأينا شيئا أو ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● سنن ابن ماجه | 2772 | أنس بن مالك | لن تراعوا يردهم ثم قال للفرس وجدناه بحرا أو إنه لبحر |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے“، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔
(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔
(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔
(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔
(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2772
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1685
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4988
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2968
2968. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر خود پیش قدمی کی اور واپس آکر فرمایا: ”ہم نے تو وہاں کچھ نہیں دیکھا، البتہ اس گھوڑے کو دریا جیسا پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2968]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒنے متعدد مسائل کااستباط کیا ہے۔
اس مقام پر عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ خوف و ہراس کے وقت کسی سپاہی کو حکم دینے کی بجائے خود امام کافریضہ ہے کہ وہ اس کی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے پیش قدمی کرے،چنانچہ ایسے حالات میں خود رسول اللہ ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے اورگلے میں تلوار لٹکائی، پھر مقام خوف کی طرف پیش قدمی کی اورلوگوں کوتسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2968