Narrated Aisha: (wife of the Prophet) Since I reached the age when I could remember things, I have seen my parents worshipping according to the right faith of Islam. Not a single day passed but Allah's Apostle visited us both in the morning and in the evening. When the Muslims were persecuted, Abu Bakr set out for Ethiopia as an emigrant. When he reached a place called Bark-al-Ghimad, he met Ibn Ad-Daghna, the chief of the Qara tribe, who asked Abu Bakr, "Where are you going?" Abu Bakr said, "My people have turned me out of the country and I would like to tour the world and worship my Lord." Ibn Ad- Daghna said, "A man like you will not go out, nor will he be turned out as you help the poor earn their living, keep good relation with your Kith and kin, help the disabled (or the dependents), provide guests with food and shelter, and help people during their troubles. I am your protector. So, go back and worship your Lord at your home." Ibn Ad-Daghna went along with Abu Bakr and took him to the chiefs of Quraish saying to them, "A man like Abu Bakr will not go out, nor will he be turned out. Do you turn out a man who helps the poor earn their living, keeps good relations with Kith and kin, helps the disabled, provides guests with food and shelter, and helps the people during their troubles?" So, Quraish allowed Ibn Ad-Daghna's guarantee of protection and told Abu- Bakr that he was secure, and said to Ibn Ad-Daghna, "Advise Abu Bakr to worship his Lord in his house and to pray and read what he liked and not to hurt us and not to do these things publicly, for we fear that our sons and women may follow him." Ibn Ad-Daghna told Abu Bakr of all that, so Abu- Bakr continued worshipping his Lord in his house and did not pray or recite Qur'an aloud except in his house. Later on Abu Bakr had an idea of building a mosque in the court yard of his house. He fulfilled that idea and started praying and reciting Qur'an there publicly. The women and the offspring of the pagans started gathering around him and looking at him astonishingly. Abu Bakr was a softhearted person and could not help weeping while reciting Qur'an. This horrified the pagan chiefs of Quraish. They sent for Ibn Ad-Daghna and when he came, they said, "We have given Abu Bakr protection on condition that he will worship his Lord in his house, but he has transgressed that condition and has built a mosque in the court yard of his house and offered his prayer and recited Qur'an in public. We are afraid lest he mislead our women and offspring. So, go to him and tell him that if he wishes he can worship his Lord in his house only, and if not, then tell him to return your pledge of protection as we do not like to betray you by revoking your pledge, nor can we tolerate Abu Bakr's public declaration of Islam (his worshipping). `Aisha added: Ibn Ad-Daghna came to Abu Bakr and said, "You know the conditions on which I gave you protection, so you should either abide by those conditions or revoke my protection, as I do not like to hear the 'Arabs saying that Ibn Ad-Daghna gave the pledge of protection to a person and his people did not respect it." Abu Bakr said, "I revoke your pledge of protection and am satisfied with Allah's protection." At that time Allah's Apostle was still in Mecca and he said to his companions, "Your place of emigration has been shown to me. I have seen salty land, planted with date-palms and situated between two mountains which are the two ,Harras." So, when the Prophet told it, some of the companions migrated to Medina, and some of those who had migrated to Ethiopia returned to Medina. When Abu Bakr prepared for emigration, Allah's Apostle said to him, "Wait, for I expect to be permitted to emigrate." Abu Bakr asked, "May my father be sacrificed for your sake, do you really expect that?" Allah's Apostle replied in the affirmative. So, Abu Bakr postponed his departure in order to accompany Allah's Apostle and fed two camels which he had, with the leaves of Samor trees for four months.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 37, Number 494
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2297
2297. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ (اُم المومنین) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو اسی دین اسلام پر پایا اور ہم پر کوئی دن نہیں گزرتا تھا مگر رسول اللہ ﷺ صبح و شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف لاتے تھے۔ جب مسلمانوں کا ابتلا بہت شدید ہو گیا تو حضرت ابو بکر ؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے نکلے یہاں تک کہ جب وہ "برک غماد" پہنچے تو انھیں ابن دغنہ ملا جو قارہ قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابو بکر ؓ!کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی زمین میں گھوم پھر کر اس کی عبادت کرتا رہوں۔ ابن دغنہ نے کہا: تم جیسا کوئی شخص نہ نکلتا ہے اور نہ ہی نکالا جا تا ہے کیونکہ تم غریبوں کی اعانت کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کا بار (بوجھ) اٹھاتے ہو، مہمانوں کو کھانا کھلاتےہو اور حق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2297]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث واقعہ ہجرت سے متعلق بہت سی معلومات پر مشتمل ہے، نیز اس سے حضرت صدیق اکبر ؓ کا استقلال اور توکل علی اللہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ اسی شہر مکہ میں (جہاں بیٹھ کر کعبہ مقدس میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں)
آنحضرت ﷺ اور آپ کے جاں نثاروں کو انتہائی ایذائیں دی جارہی تھیں۔
جن سے مجبور ہو کر حضرت صدیق اکبر ؓ یہ مقدس شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اور ہجرت حبشہ کے ارادے سے برک الغماد نامی ایک مقام قریب مکہ میں پہنچ چکے تھے۔
کہ آپ کو قارہ قبیلے کا ایک سردار مالک بن دغنہ ملا۔
قارہ بنی اہون قبیلہ کی ایک شاخ تھی جو تیراندازی میں مشہورتھے۔
اس قبیلے کے سردار مالک بن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو جب حالت سفر میں کوچ کرتے دیکھا تو فوراً اس کے منہ سے نکلا کہ آپ جیسا شریف آدمی جو غریب پرور ہو، صلہ رحمی کرنے والا ہو، جو دوسروں کا بوجھ اپنے سر اٹھا لیتا ہو اور جو مہمان نوازی میں بے نظیر خوبیوں کا مالک ہو، ایسا نیک ترین انسان ہرگز مکہ سے نہیں نکل سکتا۔
نہ وہ نکالا جاسکتا ہے۔
آپ میری پناہ میں ہو کر واپس مکہ تشریف لے چلئے اور وہیں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔
اور ابن دغنہ نے مکہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے لیے امن دینے کا اعلان عام کر دیا۔
جسے قریش نے بھی منظور کر لیا، مگر یہ شرط ٹھہرائی کہ صدیق اکبر ؓ علانیہ نماز نہ پڑھیں۔
نہ تلاوت قرآن فرمائیں، جسے سن کر ہمارے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد حضرت صدیق اکبر ؓ نے گھر کے اندر تنگی محسوس فرما کر باہر دالان میں بیٹھنا اور قرآن شریف پڑھنا شروع فرما دیا۔
اسی پر کفار قریش نے شکوہ وشکایتوں کا سلسلہ شروع کرکے ابن دغنہ کو ورغلایا اور وہ اپنی پناہ واپس لینے پر تیار ہو گیا۔
جس پر حضرت صدیق اکبر ؓ نے صاف فرما دیا کہ إني أرد إلیك جوارك و أرضی بجوار اللہ۔
یعنی اے ابن دغنہ! میں تمہاری پناہ تم کو واپس کرتا ہوں اور میں اللہ پاک کی امان پر راضی ہوں۔
اس وقت رسول کریم ﷺ مکہ شریف ہی میں موجود تھے، آپ نے حضرت صدیق ؓ سے ملاقات فرمائی تو بتلایا کہ جلد ہی ہجرت کا واقعہ سامنے آنے والا ہے۔
اور اللہ نے مجھے تمہاری ہجرت کا مقام بھی دکھلایا دیا ہے۔
جس سے آپ ﷺ کی مراد مدینہ طیبہ سے تھی۔
اس بشارت کو سن کر حضرت صدیق اکبر ؓ نے اپنی اونٹینوں کو سفر کے لیے تیا رکرنے کے خیال سے ببول کے پتے بکثرت کھلانے شروع کر دیئے۔
تاکہ وہ تیز رفتاری سے ہجرت کے وقت سفر کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
آپ چار ماہ تک لگاتار ان سواریوں کو سفر ہجرت کے لیے تیار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کا وقت آگیا۔
اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ ابن دعنہ نے گویا ابوبکر صدیق ؓ کی ضمانت کی تھی، کہ ان کو مالی اور بدنی ایذا نہ پہچنے۔
حافظ فرماتے ہیں:
و الغرض من هذا الحدیث هنا رضا أبي بکر بجوار ابن الدعنة و تقریر النبي صلی اللہ علیه وسلم له علی ذلك ووجه دخوله في الکفالة أنه لائق بکفالة الأبدان لأن الذي أجارہ کأنه تکفل بنفس المجار أن لا یضام قاله ابن المنیر (فتح)
یعنی یہاں اس حدیث کے درج کرنے سے غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ابن دغنہ کی پڑوس اور اس کی پناہ دینے پر راضی ہو گئے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس کو ثابت رکھا۔
اور اس حدیث کو باب الکفالۃ میں داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ابدان کا کفالت میں دینا جائز ثابت ہوا۔
گویا جس نے ان کو پناہ دی وہ ان کی جان کے کفیل بن گئے کہ ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے گی۔
اللہ کی شان ایک وہ وقت تھا اور ایک وقت آج ہے کہ مکہ معظمہ ایک عظیم اسلامی مرکز کی حیثیت میں دنیائے اسلام کے ستر کروڑ انسانوں کا قبلہ و کعبہ بنا ہوا ہے۔
جہاں ہر سال بر تقریب حج 20-25 لاکھ مسلمان جمع ہو کر صداقت اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔
الحمد للہ الذي صدق وعدہ و نصر عبدہ و هزم الأحزاب و حدہ فلا شيئ بعدہ۔
آج 22ذی الجحجہ 1389ھ کو بعد مغرب مطاف مقدس میں بیٹھ کر یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔
ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2297
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2297
2297. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ (اُم المومنین) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو اسی دین اسلام پر پایا اور ہم پر کوئی دن نہیں گزرتا تھا مگر رسول اللہ ﷺ صبح و شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف لاتے تھے۔ جب مسلمانوں کا ابتلا بہت شدید ہو گیا تو حضرت ابو بکر ؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے نکلے یہاں تک کہ جب وہ "برک غماد" پہنچے تو انھیں ابن دغنہ ملا جو قارہ قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابو بکر ؓ!کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی زمین میں گھوم پھر کر اس کی عبادت کرتا رہوں۔ ابن دغنہ نے کہا: تم جیسا کوئی شخص نہ نکلتا ہے اور نہ ہی نکالا جا تا ہے کیونکہ تم غریبوں کی اعانت کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کا بار (بوجھ) اٹھاتے ہو، مہمانوں کو کھانا کھلاتےہو اور حق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2297]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی پناہ دے وہ اس بات کا التزام کرلیتا ہے کہ جس کو پناہ دی گئی ہے اسے کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔
گویا وہ اس کا ضامن ہوتا ہے کہ اسے کسی قسم کی تکلیف سے دوچار نہیں ہونے دیا جائے گا۔
امام بخاری ؒ نے صرف اسی مقصد کےلیے اس طویل حدیث کو ذکر کیا ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب کسی مومن کو ظالم سے خطرہ ہوتو وہ ایسے شخص کی پناہ حاصل کرسکتا ہے جو اس کی حفاظت کرے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص عزیمت کو اختیار کرتے ہوئے صرف اللہ پر توکل کرتا ہے اور کسی کا سہارا تلاش نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے لوگوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتا۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
اس مقام پر مذکورہ حدیث لانے کی غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ابن دغنہ کی ضمانت اور اس کے امان دینے پر راضی ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے برقرار رکھا۔
اور اسے کتاب الکفالہ میں لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث سے شخصی ضمانت ثابت ہوتی ہے۔
گویا جس نے انھیں پناہ دی تھی اس نے آپ کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری اٹھائی کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف سے دوچار نہیں ہونے دیا جائے گا۔
(فتح الباري: 600/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2297