● صحيح البخاري | 6852 | عبد الله بن عمر | يبيعوه في مكانهم حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2137 | عبد الله بن عمر | يبتاعون جزافا يعني الطعام يضربون أن يبيعوه في مكانهم حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2124 | عبد الله بن عمر | يباع الطعام إذا اشتراه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2126 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2131 | عبد الله بن عمر | الذين يشترون الطعام مجازفة يضربون على عهد رسول الله أن يبيعوه حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2133 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● صحيح البخاري | 2136 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2167 | عبد الله بن عمر | يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه |
● صحيح البخاري | 2166 | عبد الله بن عمر | نهانا النبي أن نبيعه حتى يبلغ به سوق الطعام |
● صحيح مسلم | 3841 | عبد الله بن عمر | انتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● صحيح مسلم | 3840 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح مسلم | 3844 | عبد الله بن عمر | من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ويقبضه |
● صحيح مسلم | 3845 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● صحيح مسلم | 3846 | عبد الله بن عمر | إذا اشتروا طعاما جزافا أن يبيعوه في مكانه حتى يحول |
● صحيح مسلم | 3847 | عبد الله بن عمر | إذا ابتاعوا الطعام جزافا يضربون في أن يبيعوه في مكانهم وذلك حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح مسلم | 3842 | عبد الله بن عمر | من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3492 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3493 | عبد الله بن عمر | نبتاع الطعام فيبعث علينا من يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● سنن أبي داود | 3495 | عبد الله بن عمر | نهى أن يبيع أحد طعاما اشتراه بكيل حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3494 | عبد الله بن عمر | نهى رسول الله أن يبيعوه حتى ينقلوه |
● سنن أبي داود | 3498 | عبد الله بن عمر | إذا اشتروا الطعام جزافا أن يبيعوه حتى يبلغه إلى |
● سنن النسائى الصغرى | 4611 | عبد الله بن عمر | نهاهم أن يبيعوا في مكانهم الذي ابتاعوا فيه حتى ينقلوه إلى سوق الطعام |
● سنن النسائى الصغرى | 4599 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن النسائى الصغرى | 4600 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● سنن النسائى الصغرى | 4612 | عبد الله بن عمر | رأيت الناس يضربون على عهد رسول الله إذا اشتروا الطعام جزافا أن يبيعوه حتى يؤووه إلى رحالهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4610 | عبد الله بن عمر | نهاهم رسول الله أن يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه |
● سنن النسائى الصغرى | 4609 | عبد الله بن عمر | يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعنا فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● سنن النسائى الصغرى | 4608 | عبد الله بن عمر | نهى أن يبيع أحد طعاما اشتراه بكيل حتى يستوفيه |
● سنن ابن ماجه | 2229 | عبد الله بن عمر | نهانا رسول الله أن نبيعه حتى ننقله من مكانه |
● سنن ابن ماجه | 2226 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 499 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 238
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔
(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2229
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ”لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں“ (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3494
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2133
2133. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو اسے فروخت نہ کرے تاآنکہ اس پر قبضہ کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2133]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہ حدیث احتکار کے جواز کے لیے پیش کی ہے جس کی قبل ازیں وضاحت ہو چکی ہے۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ احتکار خوراک اور غیر خوراک ہر چیز میں منع ہے یا صرف انسانوں اور حیوانوں کی خورو نوش کی اشیاء میں۔
ہمارے نزدیک کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی منع ہے بشرطیکہ لوگوں کو دستیاب نہ ہو اور وہ اس کے محتاج بھی ہوں لیکن وہ شخص عام انسانوں کے لیے مہنگا کرنا چاہتا ہو۔
اگرچہ بعض احادیث میں لفظ طعام کی صراحت ہے لیکن جن احادیث میں مطلق طور پر احتکار کی ممانعت ہے انھیں مقید احادیث پر محمول کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جسے روک رکھنا لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہو احتکار میں شامل ہے،خواہ وہ سونا ہو یا کپڑا یا غلہ وغیرہ۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت سعید بن مسیّب ؒنے جب احتکار کے متعلق حدیث بیان کی تو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں احتکار کرتے ہیں؟تو کہنے لگے کہ اس حدیث کے راوی حضرت معمر ؓ بھی احتکار کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4122(1805)
یہ دونوں زیت،یعنی تیل کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے لیکن یہ اس وقت جب بازار میں عام دستیاب تھا کیونکہ جب بازار میں ضرورت کی اشیاء نایاب ہوں تو ایک صحابی کا ایسے حالات میں ذخیرہ اندوزی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2133