حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا انفقت المراة من طعام بيتها غير مفسدة، كان لها اجرها بما انفقت، ولزوجها بما كسب، وللخازن مثل ذلك، لا ينقص بعضهم اجر بعض شيئا".حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِزَوْجِهَا بِمَا كَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے مسروق نے، اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب عورت اپنے گھر کا کھانا (غلہ وغیرہ) بشرطیکہ گھر بگاڑنے کی نیت نہ ہو خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کے شوہر کو کمانے کا اور خزانچی کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب کو کم نہیں کرتا۔
Narrated `Aisha: The Prophet said, "If a woman gives in charity from her house meals without wasting (i.e. being extravagant), she will get the reward for her giving, and her husband will also get the reward for his earning and the storekeeper will also get a similar reward. The acquisition of the reward of none of them will reduce the reward of the others."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 279
إذا أنفقت المرأة وقال أبي في حديثه إذا أطعمت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما أنفقت وللخازن مثل ذلك من غير أن ينقص من أجورهم شيئا
إذا انفقت المراة من طعام بيتها، غير مفسدة، كان لها اجرها بما انفقت، ولزوجها اجره بما اكتسب، وللخازن مثل ذلك، لا ينقص بعضهم من اجر بعض شيئا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2294
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں ”خرچ کرے“ کے بجائے ”جب عورت کھلائے“ ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2294]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) گھر میں کما کر لانا مرد کا فرض ہے۔
(2) اگرچہ کمائی مرد کی ہوتی ہے تاہم عورت کو خرچ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
(3) عورت کو خرچ کرتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مال فضول ضائع نہ کیا جائے اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا جائے، اور وہاں خرچ نہ کیا جائے۔ جہاں خاوند پسند نہ کرتا ہو کیونکہ اس سے گھر کے مالی حالات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔
(4) خزانچی سے مراد وہ شخص ہے جو مالک کی اجازت سے گھر کی ضروریات کے لیے خرچ کرتا ہے، خواہ وہ ملازم ہو یا گھر کا کوئی فرد، مثلاً: چھوٹا بھائی یا بیٹا وغیرہ۔
(5) خازن کو یہ ثواب اس وقت ملے گا جب وہ خوشی سے خرچ کرے، اگر وہ صرف حکم کی تعمیل کے طور پر کسی مستحق کو دیتا ہے لیکن دل میں ناراضی محسوس کرتا ہے کہ میرا مالک یہاں کیوں خرچ کرتا ہے تو اسے ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2294
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 514
´نفلی صدقے کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب عورت اپنے گھر کے مال سے فضول خرچی کئے بغیر خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کے بدلے میں اجر و ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کیلئے کمانے کا ثواب اور اسی طرح خزانچی کیلئے بھی اجر ہے ہر ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 514]
لغوی تشریح 514: غَیرَ مُفسِدَۃٍ یعنی فضول خرچی، اسراف وتبذیر کے بغیر، نیز یہ خرچ کرنا خاوند اور اس کے زیرِ کفالت افراد کے اخراجات پر اثر انداز نہ ہو۔ بیوی کو خاوند کے مال سے خرچ کرنے کی اجازت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ شوہر اپنی بیوی کو صریح طور پر اجازت دے دے یا اشارتًا جیسا کہ معاشرے میں یہ چیز معروف و معلوم ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر معمولی چیزوں کو خیرات میں دے دینا قابلِ مؤاخذہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسا سمجھاجاتا ہے کہ گویا اس کی بیوی کو اجازت دے دی گئی ہے۔
فوائد و مسائل 514: ➊ عورت کو خاوند کی اجازت کے بغیر اتنا صدقہ و خیرات نہیں کرنا چاہیے کہ خاوند کے گھر کا معاشی نظام متأثر ہو کر برباد ہو جائے اور شوہر کے لیے معاشی مشکلات اور دشواریاں کھڑی ہو جائیں۔ ➋ معمولی صدقہ، مثلًا: سائل کو روٹی دے دی یا تھوڑا بہت آٹا دے دیا یا پڑوسی کو تھوڑا بہت نمک مرچ دے دی وغیرہ، اس صدقے میں بیوی کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر کما کر لانے کی وجہ سے، خزانچی اس کی حفاظت کرنے کی وجہ سے اور خادم خدمت گاری کی بنا پر اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ کسی کے اجر میں سے کمی نہیں کی جائے گی، ہر ایک کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 514
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1685
´عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کسی فساد کی نیت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور مال کمانے کا ثواب اس کے شوہر کو اور خازن کو بھی اسی کے مثل ثواب ملے گا اور ان میں سے کوئی کسی کے ثواب کو کم نہیں کرے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1685]
1685. اردو حاشیہ: شوہر کی صریح اجازت نہ بھی ہوتو اس کے مزاج زوق عادت اور عرف سے سمجھی جاسکتی ہے۔ اور اس کے برعکس جہاں شوہر دینا چاہتا ہو مگر بیوی بخیل ہو۔۔۔اس کا حال خود سمجھا جاسکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1685