ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابوبدر شجاع بن ولید نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر بن محمد عمری نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گفتگو کی، (کہ وہ اس سال مکہ نہ جائیں) تو انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر گئے تھے اور کفار قریش نے ہمیں بیت اللہ سے روک دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کو نحر کیا اور سر منڈایا۔
Narrated Nafi`: That `Abdullah and Salim said to `Abdullah bin `Umar, "(You should not go for Hajj this year)." `Abdullah bin `Umar replied, "We set out with the Prophet (to Mecca for performing `Umra) and e infidels of Quraish prevented us from reaching the Ka`ba. Allah's Apostle slaughtered his Budn (camels for sacrifice) and got his head shaved."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 28, Number 39
خرج معتمرا فحال كفار قريش بينه وبين البيت فنحر هديه وحلق رأسه بالحديبية وقاضاهم على أن يعتمر العام المقبل ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا ولا يقيم بها إلا ما أحبوا فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم فلما أن أقام بها ثلاثا أمروه أن يخرج فخرج
خرج معتمرا فحال كفار قريش بينه وبين البيت فنحر هديه وحلق رأسه بالحديبية وقاضاهم على أن يعتمر العام المقبل ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا ولا يقيم بها إلا ما أحبوا فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم فلما أقام بها ثلاثا أمروه أن يخرج فخرج
إن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله وأنا معه حين حالت كفار قريش بينه وبين البيت أشهدكم أني قد أوجبت عمرة فانطلق حتى أتى ذا الحليفة فلبى بالعمرة ثم قال إن خلي سبيلي قضيت عمرتي وإن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله وأنا معه ثم تلا لقد كان لكم في رس
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 632
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری)[بلوغ المرام/حدیث: 632]
632راوئ حدیث: حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ مسور کے ”میم“ کے نیچے کسرہ ”سین“ ساکن اور ”واو“ پر فتحہ ہے۔ مخرمہ میں ”میم“ پر فتحہ ”خا“ ساکن اور ”را“ پر فتحہ ہے۔ زہری قرشی ہیں۔ صاحب فضل لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ منتقل ہو گئے۔ یزید بن معاویہ نے جب 64 ہجری کے آغاز میں مکے کا محاصرہ کیا تو اس وقت نماز پڑھتے ہوئے انہیں منجنیق کا پتھر آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 632
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1812
1812. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ اور حضرت سالم نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مکہ مکرمہ نہ جانے کے متعلق گفتگو کی تو انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں اونٹ کی قربانی کردی اور اپنا سر مبارک منڈوادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے جمہور علماءکے قول کی تائید ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی کرلے خواہ حل میں ہو یا حرم میں، اور امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ قربانی حرم میں بھیج دی جائے اور جب وہاں ذبح ہولے تب احرام کھولے فقال الجمهور یذبح المحصر الهدي حیث یحل سواءکان في الحل أو في الحرم الخ (فتح) یعنی جسے حج سے روک دیا جائے وہ جہاں احرام کھولے حل میں ہو یا حرم میں اسی جگہ قربانی کر ڈالے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1812
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1812
1812. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ اور حضرت سالم نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مکہ مکرمہ نہ جانے کے متعلق گفتگو کی تو انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں اونٹ کی قربانی کردی اور اپنا سر مبارک منڈوادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ: (1) امام مالک ؒ کا موقف ہے کہ محصر پر قربانی کرنا ضروری نہیں جبکہ مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں حکم اور سببِ حکم بیان ہوا ہے۔ سبب احصار ہے اور حکم سبب قربانی کرنا ہے۔ اس حدیث کے ظاہری الفاظ کا یہی تقاضا ہے کہ اس حکم کو سبب سے وابستہ کیا جائے۔ (فتح الباري: 14/4) واللہ أعلم۔ (2) اس حدیث سے بھی جمہور علماء کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی ذبح کر دے، خواہ وہ مقام حل میں ہو یا حرم کا حصہ، جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قربانی کو حرم میں بھیج دیا جائے، جب وہاں ذبح ہو جائے تو احرام کھولا جائے۔ حدیث سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1812