Narrated Abu Wail: Hudhaifa said, "`Umar said, 'Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle (p.b.u.h) about afflictions'?' I said, 'I know it as the Prophet had said it.' `Umar said, 'No doubt, you are bold. How did he say it?' I said, 'A man's afflictions (wrong deeds) concerning his wife, children and neighbors are expiated by (his) prayers, charity, and enjoining good.' (The sub-narrator Sulaiman added that he said, 'The prayer, charity, enjoining good and forbidding evil.') `Umar said, 'I did not mean that, but I ask about that affliction which will spread like the waves of the sea.' I said, 'O chief of the believers! You need not be afraid of it as there is a closed door between you and it.' He asked, 'Will the door be broken or opened?' I replied, 'No, it will be broken.' He said, 'Then, if it is broken, it will never be closed again?' I replied, 'Yes.' " Then we were afraid to ask what that door was, so we asked Masruq to inquire, and he asked Hudhaifa regarding it. Hudhaifa said, "The door was `Umar. "We further asked Hudhaifa whether `Umar knew what that door meant. Hudhaifa replied in the affirmative and added, "He knew it as one knows that there will be a night before the tomorrow morning."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 516
● صحيح البخاري | 7096 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر |
● صحيح البخاري | 3586 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر |
● صحيح البخاري | 525 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر والنهي الفتنة التي تموج كما يموج البحر |
● صحيح البخاري | 1895 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة |
● صحيح البخاري | 1435 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والمعروف تموج كموج البحر |
● صحيح مسلم | 7268 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وماله ونفسه وولده وجاره يكفرها الصيام والصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر |
● جامع الترمذي | 2258 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره يكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر |
● سنن ابن ماجه | 3955 | حذيفة بن حسيل | فتنة الرجل في أهله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر |
● مسندالحميدي | 452 | حذيفة بن حسيل | من يحدثنا عن الفتنة |
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 525
´فتنوں کا کفارہ`
«. . . قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنْ الْفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ . . .»
”. . . عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 525]
لغوی توضیح:
«الإِسْلاَمُ بَدَأَ غَرِيباً» اسلام اجنبی شروع ہوا، یعنی چند قلیل افراد میں، پھر پھیلا اور غالب آ گیا۔
«الَّتِي» «تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ» وہ فتنہ جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا، مراد اس کی شدت، عظمت، پھیلاؤ اور وسعت ہے۔
«بَابًا مُغْلَقًا» بند دروازہ، مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی حیات طیبہ میں کوئی بڑا فتنہ رونما نہیں ہوا لیکن ان کی شہادت کے بعد ایسا فتنوں کا دروازہ کھلا جو آج تک بند نہیں ہو سکا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 88
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3955
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل: 1۔
اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔
ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔
(2)
۔
چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔
(3)
اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔
(4)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔
اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔
(5)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔
عام مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔
(6)
یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپﷺ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔
اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3955
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2258
´سمندر کی موج کی طرح کے فتنے کا ذکر۔`
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے؟ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ رضی الله عنہ نے بیان کیا: ”آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہو گا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں“ ۱؎، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2258]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل،
مال،
اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو نماز،
روزہ،
صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔
2؎:
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا،
یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا،
اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی،
چنانچہ ہر کوئی سکون واطمینان کا متلاشی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2258
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1435
1435. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہو؟ میں نے کہا:جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے اسی طرح یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں! تمہاری جرءت اس بارے میں قابل داد ہے، بتاؤ!آپ نے کیسے فرمایا تھا؟میں نے کہا: آدمی کا فتنہ اپنے اہل وعیال، اولاد اور ہمسائے کے متعلق ہوتا ہے، نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز اچھا کام اس کے لیے کفارہ ہے۔ راوی حدیث سلیمان نے کہا: وہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنایہ سب اس کا کفارہ بن جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اسکے متعلق نہیں، بلکہ میں تو اس فتنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوسمندروں کی لہروں کی طرح موجز ہوگا۔ میں نے کہا:اے امیرالمومنین!آپ اس کے متعلق کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کے اور اسکے درمیان ایک بند شده دروازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1435]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے حضرت حذیفہ ؓ کے بیان کی تعریف کی، کیونکہ وہ اکثر آنحضرت ﷺ سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپ کے بعد ہونے والے تھے‘ پوچھتے رہا کرتے تھے۔
جب کہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی۔
اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا، کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے۔
اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1435
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1435
1435. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہو؟ میں نے کہا:جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے اسی طرح یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں! تمہاری جرءت اس بارے میں قابل داد ہے، بتاؤ!آپ نے کیسے فرمایا تھا؟میں نے کہا: آدمی کا فتنہ اپنے اہل وعیال، اولاد اور ہمسائے کے متعلق ہوتا ہے، نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز اچھا کام اس کے لیے کفارہ ہے۔ راوی حدیث سلیمان نے کہا: وہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنایہ سب اس کا کفارہ بن جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اسکے متعلق نہیں، بلکہ میں تو اس فتنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوسمندروں کی لہروں کی طرح موجز ہوگا۔ میں نے کہا:اے امیرالمومنین!آپ اس کے متعلق کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کے اور اسکے درمیان ایک بند شده دروازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1435]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت حذیفہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں عام طور پر رسول اللہ ﷺ سے فتنوں کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ ان سے بچنے کے متعلق کوئی تدبیر کروں۔
(2)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر ؓ کا شہید ہونا تھا جسے حضرت عمر فاروق ؓ بھی خوب جانتے تھے۔
واقعی آپ کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا بازار گرم ہوا جو قیامت تک ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔
آپ کا وجود مسعود واقعی ان فتنوں کے سامنے سدِ سکندری کی حیثیت رکھتا تھا۔
(3)
حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور آدمی اندرونی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد ہم آئندہ حدیث: 3586 کے تحت ذکر کریں گے۔
إن شاءاللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1435