حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن خالد الحذاء، عن عبد الله بن الحارث، عن ابن عباس قال: «كان لنعل رسول الله صلى الله عليه وسلم قبالان مثني شراكهما» حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «كَانَ لِنَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَالَانِ مَثْنِيٌّ شِرَاكَهُمَا»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک کے دونوں تسمے دوہرے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ابن ماجه: 3614)» اس روایت کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ثقہ امام بلکہ امیر المومنین فی الحدیث ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے اور صحیح یہ ہے کہ وہ طبقاتی تقسیم کے مطابق طبقہ ثانیہ کے نہیں بلکہ طبقہ ثالثہ کے مدلس تھے۔ دیکھئیے میری کتاب تحقیقی مقالات [ج3 ص306،327] حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں، ہم اُن کی صرف ان مرویات سے ہی حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریں۔ مثلاً سفیان ثوری، اعمش اور ابو اسحاق وغیرہم... [صحيح ابن حبان 90/1، دوسرا نسخه 161] عینی حنفی نے کہا: اور سفیان (ثوری) مدلسین میں سے تھے اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی اِلا یہ کہ اُس کی تصریح و سماع دوسری سند سے ثابت ہو جائے۔ [عمدة القاري ج3ص112] روایت مذکورہ عن سے ہے، لہٰذا ضعیف ہے اور حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کا اسے فتح الباری [312/10 تحت ح5857۔5858] میں”اسنادہ قوی“ کہنا ہمارے نزدیک غلط ہے۔