شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر

شمائل ترمذي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت کا بیان
4. ابوالھیثم بن ہیہاں کا سید المساکین صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین رضی اللہ عنہم کی ضیافت کرنا
حدیث نمبر: 373
Save to word مکررات اعراب
حدثنا محمد بن إسماعيل، قال: حدثنا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا شيبان ابو معاوية، قال: حدثنا عبد الملك بن عمير، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في ساعة لا يخرج فيها ولا يلقاه فيها احد، فاتاه ابو بكر، فقال: «ما جاء بك يا ابا بكر؟» قال: خرجت القى رسول الله صلى الله عليه وسلم وانظر في وجهه، والتسليم عليه، فلم يلبث ان جاء عمر فقال: «ما جاء بك يا عمر؟» قال: الجوع يا رسول الله، قال صلى الله عليه وسلم: «وانا قد وجدت بعض ذلك» فانطلقوا إلى منزل ابي الهيثم بن التيهان الانصاري وكان رجلا كثير النخل والشاء، ولم يكن له خدم، فلم يجدوه، فقالوا لامراته: اين صاحبك؟ فقالت: انطلق يستعذب لنا الماء، فلم يلبثوا ان جاء ابو الهيثم بقربة يزعبها، فوضعها ثم جاء يلتزم النبي صلى الله عليه وسلم ويفديه بابيه وامه، ثم انطلق بهم إلى حديقته فبسط لهم بساطا، ثم انطلق إلى نخلة فجاء بقنو فوضعه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «افلا تنقيت لنا من رطبه؟» فقال: يا رسول الله، إني اردت ان تختاروا، او تخيروا من رطبه وبسره، فاكلوا وشربوا من ذلك الماء. فقال صلى الله عليه وسلم: «هذا والذي نفسي بيده من النعيم الذي تسالون عنه يوم القيامة ظل بارد، ورطب طيب، وماء بارد» . فانطلق ابو الهيثم ليصنع لهم طعاما. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تذبحن ذات در» ، فذبح لهم عناقا او جديا، فاتاهم بها فاكلوا، فقال صلى الله عليه وسلم: «هل لك خادم؟» قال: لا. قال: «فإذا اتانا سبي فاتنا» . فاتي النبي صلى الله عليه وسلم براسين ليس معهما ثالث، فاتاه ابو الهيثم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اختر منهما» فقال: يا رسول الله، اختر لي. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن المستشار مؤتمن، خذ هذا فإني رايته يصلي، واستوص به معروفا» . فانطلق ابو الهيثم إلى امراته، فاخبرها بقول رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت امراته: ما انت ببالغ حق ما قال فيه النبي صلى الله عليه وسلم إلا بان تعتقه قال: فهو عتيق، فقال صلى الله عليه وسلم:" إن الله لم يبعث نبيا ولا خليفة إلا وله بطانتان: بطانة تامره بالمعروف وتنهاه عن المنكر، وبطانة لا تالوه خبالا، ومن يوق بطانة السوء فقد وقي"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: «مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟» قَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ، وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ فَقَالَ: «مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟» قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ» فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لِامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتِ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ؟» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ. فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنِ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيِّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ» . فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ» ، فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا، فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَكَلُوا، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ لَكَ خَادِمٌ؟» قَالَ: لَا. قَالَ: «فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا» . فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْتَرْ مِنْهُمَا» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اخْتَرْ لِي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ، خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا» . فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ حَقَّ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِأَنْ تَعْتِقَهُ قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ"
فقیہ امت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں گھر سے باہر نکلے جس وقت آپ کہیں نہیں نکلتے تھے اور نہ آپ کو کوئی شخص اس وقت ملتا تھا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! تجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے؟ انہوں نے عرض کی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے، آپ کا چہرہ مبارک دیکھنے اور آپ کو سلام کہنے نکلا ہوں۔ ابھی زیادہ دیر نہ ٹھہرے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: عمر تمہیں کون سی چیز لے آئی ہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بھوک نکال لائی ہے۔ فرمایا: بھوک تو میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔ پھر تینوں ہی ابوالہیثم بن تیہاں الانصاری کے گھر کی طرف چلے گئے۔ ابوالہیثم کا کھجوروں کا باغ اور بہت سی بکریاں تھیں مگر ان کے پاس کوئی خادم نہ تھا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو) ابوالہیشم گھر میں موجود نہیں تھا۔ آپ نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ تمہارا خاوند کہاں ہے؟ تو وہ کہنے لگی: ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ابوالہیثم پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے آ گئے اور مشکیزہ رکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو ساتھ لے کر باغ میں چلے گئے۔ وہاں اس نے ان کے لئے ایک چٹائی بچھا دی اور خود کھجور کے ایک درخت کی طرف گئے تو وہاں سے ایک خوشہ لا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں تر کھجوریں اتار کر کیوں نہیں لائے ہو؟ پورا خوشہ لے آئے ہو؟ تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ آپ اپنی پسند کی تر اور ڈوڈی کھجوریں کھا لیں۔ چنانچہ ان تینوں نے کھجوریں کھائیں اور مشکیزہ سے پانی پیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا، ٹھنڈے سائے، تر اور پاک عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔ ابوالہیثم ان کے لیے کھانا تیار کرنے کو جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا تو اس نے ان کے لیے سال سے کم عمر کی بھیڑ، یا بکری ذبح کی اور (تیار کر کے) ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ نے تناول فرما کر ارشاد فرمایا: تمہارے پاس کوئی خادم ہے، عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب ہمارے پاس قیدی آئیں تو آنا۔ بعد ازاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے جن سے زائد ایک بھی نہ تھا۔ تو سیدنا ابوالہیثم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ان میں سے ایک کو پسند کر لو، تو انہوں نے کہا: آپ خود ہی میرے لیے پسند فرمائیں، فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ اسے پکڑ لو، کیونکہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا۔ ابوالہیثم رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے پاس جا کر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کہ اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا کی خبر دی تو وہ کہنے لگی: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو تب ہی پورا کر سکتے ہو جب کہ تم اسے آزاد کر دو۔ وہ فرمانے لگے: یہ آزاد ہے۔ (جب اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا اور نہ ہی کوئی خلیفہ مقرر کیا ہے مگر اس کے دو قابل اعتماد دوست ہوتے ہیں۔ ایک دوست اسے نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا دوست اس کے نقصان میں کمی نہیں کرتا، جو برے دوست سے بچ گیا وہ یقیناً شر سے بچ گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 2369، وقال: حسن صحيح غريب)»
اس روایت کی سند عبدالملک بن عمیر مدلس کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [انوار الصحيفه ص 253]
اس روایت کی اصل صحیح بخاری (7198) سنن ابی داود (5128) اور سنن ابن ماجہ (3745) میں مختصر طور پر مذکور ہے اور وہ صحیح ہے۔
عبدالملک بن عمیر کے مدلس ہونے کے لیے دیکھئے [طبقات المدلسين طبقه ثالثه 3/84]

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.