شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر

شمائل ترمذي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پگڑی مبارک کا بیان
3. عمامہ مبارک کا شملہ کندھوں کے درمیان ہوتا
حدیث نمبر: 116
Save to word مکررات اعراب
حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني قال: حدثنا يحيى بن محمد المدني، عن عبد العزيز بن محمد، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اعتم سدل عمامته بين كتفيه» قال نافع: «وكان ابن عمر، يفعل ذلك» قال عبيد الله: «ورايت القاسم بن محمد، وسالما يفعلان ذلك» حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَمَّ سَدَلَ عِمَامَتَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ» قَالَ نَافِعٌ: «وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَفْعَلُ ذَلِكَ» قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: «وَرَأَيْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، وَسَالِمًا يَفْعَلَانِ ذَلِكَ»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پگڑی مبارک باندھتے تو اس کے شملہ کو اپنے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا دیتے تھے (ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد، امام) نافع فرماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے۔ اور عبیداللہ فرماتے ہیں: قاسم بن محمد اور سالم کو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «حسن» :
«سنن ترمذي، ح 1732، وقال: حسن غريب.... صحيح ابن حبان (الاحسان:6363، نسخه محققه:6397). كتاب الضعفاء الكبير اللعقيلي (3/21)»
اس روایت کی سند بظاہر صحیح ہے، لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: دراوردی (عبدالعزیز بن محمد) کی عبید اللہ (بن عمر) سے عام حدیثیں عبداللہ (بن عمر العمری) کی مقلوب شدہ حدیثیں ہیں... عبد العزیز الدراوردی کی عبید اللہ سے حدیثیں منکر ہیں۔ (سوالات ابی داود نسخہ محققہ ص 222 فقرہ: 198)
امام احمد نے مزید فرمایا: «ما حدث عن عبيد الله بن عمر فهو عن عبدالله بن عمر» انھوں (عبد العزیز الدراوردی) نے عبید اللہ بن عمر سے جو حدیثیں بیان کی ہیں، وہ عبداللہ بن عمر کی حدیثیں ہیں۔ کتاب الجرح والتعدیل 395/5 وسندہ صحیح
عبد اللہ بن العمری کو اگرچہ امام احمد ایک روایت میں لین الحدیث (ضعیف) کہتے تھے۔ (دیکھئے سوالات المروذی: 124)
لیکن قول راجح میں نافع سے ان کی روایت حسن ہوتی ہے، لہٰذا یہاں منکر کا اعتراض محل نظر ہے اور امام احمد کے مقابلے میں ترمذی کی تحسین یہاں راجح ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس حدیث کے شواہد کے لیے دیکھئے صحیح مسلم (1359، ترقیم دارالسلام:3312) اور مجمع الزوائد (120/5)

قال الشيخ زبير على زئي: حسن


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.