((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احب لقاء الله احب الله لقاءه، ومن لم يحب لقاء الله لم يحب الله لقاءه"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ لَمْ يُحِبَّ لِقَاءَ اللَّهِ لَمْ يُحِبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے ملنے کو دوست رکھتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو دوست رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا، اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔“
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जो व्यक्ति अल्लाह से मिलना पसंद करता है, अल्लाह भी उस से मिलना पसंद करता है, और जो अल्लाह से मिलना पसंद नहीं करता, अल्लाह भी उस से मिलना पसंद नहीं करता।”
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الرقاق، رقم: 6507، 6508، وكتاب التوحيد، رقم: 7504 - صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعا، رقم: 6822، 6824، 6826، 6828 - مسند أحمد: 39/16، رقم: 19/8118، حدثنا عبدالرزاق بن همام: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا به أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - سنن نسائي، رقم: 1834 - سنن ابن ماجه، رقم: 4264.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 21 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 21
شرح الحديث: مذکورہ حدیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آدمی شدت موت کو ناپسند نہ کرے، بلکہ ہر بندہ ہی شدت موت سے ڈرتا ہے اور اسے ناپسند سمجھتا ہے حتی کہ بعض انبیاء کے متعلق بھی آیا ہے کہ جب موت کا فرشتہ آیا تو انہوں نے موت کو ناپسند سمجھا۔ لہذا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا کو ترجیح نہ دے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا مسکن نہ سمجھے۔ فرمان باری تعالیٰ سے اس کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے: «إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا»[يونس: 7] "یقیناً وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے، اور اسی کے ساتھ مطمئن ہیں۔ " دوسرے مقام پر فرمایا: «وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ»[البقره: 96] اور اے پیغمبر! ضرور بہ ضرور آپ انہیں پائیں گے زندگی کا سب سے زیادہ حریص۔ " معلوم ہوا کہ الله کی ملاقات کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی پر ہی شاداں و فرحاں رہے، اور آخرت پر یقین نہ رکھے اور الله کی نشانیوں میں غور و فکر نہ کرے۔ اس حدیث کی ایک اور تفسیر بھی ہے، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله سے ملنے کو دوست رکھتا ہے، الله بھی اس سے ملنے کو دوست رکھتا ہے۔ اور جو الله سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے الله بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔ " تو سیدہ عائشہ رضی الله عنہا یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی پسند نہیں کرتے؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله کے ملنے سے موت مراد نہیں ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے الله کی رضا اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (الله سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے) ہوتی ہے، اس لیے وہ الله سے ملاقات کا خواہشمند ہو جاتا ہے، اور الله بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے الله کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے، وہ الله سے جا ملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے، پس الله بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ " [صحيح بخاري، كتاب الرقاق، رقم: 6507] لہٰذا خوش بختی یہ ہے کہ موت کے وقت الله کی ملاقات کا شوق غالب ہو اور ترک دنیا کا غم نہ ہو۔ الله ہر مسلمان کو اس کیفیت کے ساتھ موت نصیب کرے۔ آمین! اور جو شخص الله عزوجل سے ملاقات کا شوق رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق عمل کا اہتمام کرے اور کسی بھی حال میں الله کی عبادت میں دوسروں کو شریک نہ کرے۔ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: «فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا»[الكهف: 110] "تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ " حافظ ابن کثیر رحمة الله علیہ لکھتے ہیں: "یہ آیت دلیل ہے کہ الله کے نزدیک عمل مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق ہو، اور دوسری یہ کہ اس سے مقصود صرف الله کی خوشنودی ہو، نام و نمود، ریاکاری یا کوئی اور دنیاوی غرض مقصود نہ ہو۔ " [تفسير ابن كثير، تحت الآية] کلمہ طیبہ اس وقت پڑھنے کا بھی مقصد یہی ہے مومن کو موت کے وقت جو تکلیف ہوتی ہے اس کا انجام راحت ابدی ہے۔
الله تعالیٰ محبت کرتا ہے: اس حدیث میں الله تعالیٰ کا اپنے بندوں سے محبت کرنا بھی ثابت ہے، لہذا یہاں سے معطلّہ اور مووّلہ کے مذہب کی تردید ہو جاتی ہے جو الله تعالیٰ کے لیے صفت محبت کو ثابت ہی نہیں کرتے یا پھر اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ محبت کا معنی خیر و بھلائی کا ارادہ ہے۔ یاد رہے کہ واقعتاً محبت کا نتیجہ خیر و بھلائی ہے، لیکن الله کے لیے صفت محبت ثابت ہے۔ «كما يليق بجلاله وشانه.»
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 21