الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
باجماعت نماز کا بیان
जमाअत के साथ नमाज़ पढ़ना
1. باجماعت نماز کی فضیلت
“ जमाअत से नमाज़ पढ़ने का सवाब ”
حدیث نمبر: 100
Save to word مکررات اعراب Hindi
197- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة.“197- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس گنا افضل ہے۔
इसी सनद के साथ (हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से) रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जमाअत के साथ नमाज़ अकेले की नमाज़ से सत्ताईस (27) गुना अफ़ज़ल यानि अच्छी है।”

تخریج الحدیث: «197- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 286، ك 8 ب 1 ح 1)، التمهيد 137/14، الاستذكار:255، و أخرجه البخاري (645) ومسلم (650) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

   صحيح البخاري645عبد الله بن عمرصلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة
   صحيح مسلم1478عبد الله بن عمرصلاة الرجل في الجماعة تزيد على صلاته وحده سبعا وعشرين
   صحيح مسلم1477عبد الله بن عمرصلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة
   جامع الترمذي215عبد الله بن عمرصلاة الجماعة تفضل على صلاة الرجل وحده بسبع وعشرين درجة
   سنن النسائى الصغرى838عبد الله بن عمرصلاة الجماعة تفضل على صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة
   سنن ابن ماجه789عبد الله بن عمرصلاة الرجل في جماعة تفضل على صلاة الرجل وحده بسبع وعشرين درجة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم100عبد الله بن عمرصلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة
   بلوغ المرام314عبد الله بن عمر صلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة
   المعجم الصغير للطبراني288عبد الله بن عمر فضل صلاة الجماعة على صلاة الفذ سبع وعشرون درجة
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 100 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 100  
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 645، ومسلم 650، من حديث مالك به]
تفقہ:
① فقہی فوائد کے لیے دیکھئے: [ح11]
② سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرض نماز کے علاوہ تمہاری (نفل) نماز گھر میں افضل ہے۔ [الموطا 130/1 ح289 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 197   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 314  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باجماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔ اور بخاری میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس میں «جزء» ‏‏‏‏ کی جگہ «درجة» کا لفظ ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 314»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:645، ومسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:650 و حديث أبي هريرة أخرجه البخاري، الأذان، حديث:647، ومسلم، المساجد، حديث:651، وحديث أبي سعيد الخدري أخرجه البخاري، الأذان، حديث:646.»
تشریح:
نماز باجماعت پڑھنا فرض اور واجب ہے یا سنت ِ مؤکدہ؟ اس میں اختلاف ہے۔
اس حدیث سے بظاہر ان حضرات کی تائید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نماز باجماعت پڑھنا فرض اور واجب نہیں کیونکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے میں مختلف اسباب کی وجہ سے درجات میں کمی و بیشی ہوتی ہے تو گویا منفرد کی بھی نماز ہوگئی‘ خواہ مراتب اور درجات کم ہی ہوں۔
اگر باجماعت نماز واجب ہوتی تو پھر منفرد کی نماز جائز ہی نہ ہوتی‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ نماز جماعت سے پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
نماز باجماعت کی فرضیت اور اس کے وجوب کے قائلین کے نقطۂ نظر کے مطابق مذکورہ بالا استدلال کئی وجوہ کی بنا پر محل نظر ہے۔
ایک یہ کہ کسی چیز کی افضیلت کے ذکر سے اس چیز کی فرضیت اور وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔
دوسرے یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی اس پر مواظبت اور ہمیشگی کی ہے۔
اور تیسرے یہ کہ نماز باجماعت میں سستی کرنے والوں کی بابت احادیث میں سخت وعیدیں مذکور ہیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو ان کے گھروں کے اندر ہی زندہ جلا دینے کا ارادہ فرمایا ہے‘ نیز بعض روایات میں تو بغیر کسی شرعی عذر کے اکیلے پڑھی گئی نماز کو فَلاَ صَلاَۃَ لَہُکہا گیا ہے۔
بنابریں راجح بات یہی لگتی ہے کہ نماز کی باجماعت ادائیگی ضروری ہے۔
ہاں‘ اگر کوئی معقول شرعی عذر ہو تو پھر بغیر جماعت کے اکیلے نماز پڑھنے والا بھی ماجور ہو گا۔
اور اس کے ذمہ سے یہ فرض ادا ہو جائے گا۔
لیکن بلاعذر جماعت چھوڑنے پر گناہ گار ہو گا۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 314   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث789  
´جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا جماعت کی نماز تنہا پڑھی گئی نماز پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 789]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے پچیس نمازوں کا ثواب ملتا ہے یا ستائیس نمازوں کا؟ دونوں مفہوم کی احادیث مروی ہیں۔
اس کے بارے میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اس کا تعلق نماز کی ادائیگی عمدہ ہونے خشوع و خضوع اور آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرنے سے ہے۔
کسی کو پچیس گنا ثواب ملتا ہے اور کسی کو ستائیس گنا۔
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ پہلے اللہ تعالی نے پچیس گنا ثواب کا وعدہ فرمایا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کے مطابق امت کو بتادیا۔
بعد میں اللہ تعالی نے ثواب میں اضافہ کرکے ستائیس گنا کردیا تو نبی ﷺ نی اس کے مطابق خبردے دی۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 789   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1477  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باجماعت نماز ادا کرنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گناہ افضل ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1477]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں چیزوں کے خواص اور اثرات میں درجوں کا تفاوت ہے اور اس فرق و امتیاز کی بنا پر چیزوں کی قدر و قیمت اور افادیت میں فرق پڑتا ہے اس طرح ہمارے اعمال میں بھی درجوں کا فرق ہے اور یہ علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ کے بتانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا انکشاف ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نماز باجماعت کی فضیلت اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلہ میں پچیس یا ستائیس گنا زیادہ ہے یعنی بعض اوقات پچیس گنا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ ستائیس گنا اس فرق کی وجہ نماز میں آنے والے کا خلوص خضو ع و خشوع یا بعد مصافت ہے یا آنے والے کی مشغولیت اور مشقت ہے کہ اس نے جماعت کے حصول کے لیے کس قسم کا کام چھوڑا ہے اور اس کے لیے کس قدر تکلیف اٹھانی پڑی ہے یا بلند قرآءت والی نمازوں کا ثواب ستائیس گنا اور آہستہ قرآءت والی کا پچیس گنا یا جن نمازوں میں فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے ان کا ثواب ستائیس گنا اور باقی کا پچیس گنا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1477   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:645  
645. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز باجماعت، اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:645]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں چیزوں کے خواص و اثرات میں درجات کا فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی قدرو قیمت اور افادیت میں بھی فرق ہوجاتا ہے، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی درجات کا تفاوت ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک نماز باجماعت کی ادائیگی بھی ہے۔
اس کی فضیلت بایں الفاظ بیان کی گئی ہے کہ اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں اس کی فضیلت ستائیس درجے زیادہ ہے، یعنی اس کی پابندی کرنے والے کو ستائیس گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔
اب صاحب ایمان کا مقام یہ ہے کہ وہ اس فضیلت پر دل وجان سے یقین رکھتے ہوئے ہر وقت کی نماز جماعت ہی سے پڑھنے کا اہتمام کرے۔
پھر نماز باجماعت پڑھنے والوں کے اخلاص و تقویٰ اور خشوع خضوع میں تفاوت کی وجہ سے ثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، غالبا اگلی حدیث میں پچیس درجات کا ذکر اسی وجہ سے ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلا وجہ جماعت کے بغیر اکیلے نماز پڑھنا صحیح ہے بلکہ واجب کی فضیلت غیر واجب کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
والله أعلم۔
(2)
انفرادی نماز کے مقابلے میں اجتماعی نماز ستائیس درجے زیادہ فضیلت کی حامل اس لیے ہے کہ اس میں ایسی ستائیس خصلتیں پائی جاتی ہیں جن کی فضیلت کے متعلق الگ الگ احادیث مروی ہیں۔
ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ نماز باجماعت ادا کرنے کی نیت سے اذان کا جواب دینا۔
٭مسجد میں اول وقت پہنچنے کےلیے جلدی کرنا۔
٭مسجد کی طرف سکون ووقار سے جانا۔
٭دعا پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہونا۔
٭مسجد میں پہنچ کر تحیۃالمسجد ادا کرنا۔
٭جماعت کا انتظار کرنا۔
٭ فرشتوں کا اس کےلیے دعائے رحمت کرنا۔
٭فرشتوں کا اللہ کے ہاں پہنچ کر نمازی کے لیے گواہی دینا۔
٭اقامت کا جواب دینا۔
٭ اقامت کے وقت شیطانی وساوس سے محفوظ رہنا کیونکہ وہ اقامت کے وقت بھاگ جاتا ہے۔
٭امام کی تکبیر تحریمہ کا انتظار کرنا۔
٭تکبیر تحریمہ میں شمولیت کرنا۔
٭صفوں کے شگاف بند کرتے ہوئے صف بندی کا اہتمام کرنا۔
٭امام کی تسميع یعنی سمع الله لمن حمده کا جواب دینا۔
٭سہوونسیان سے محفوظ رہنا۔
اگر امام بھول جائے تو اسے سبحان اللہ کہہ کر آگاہ کرنا۔
٭خشوع خضوع کی وجہ سے دوران نماز میں آنے والےخیالات سے محفوط رہنا۔
٭نماز ادا کرتے وقت مطلوبہ شرعی زینت کا اہتمام کرنا۔
٭ملائکۂ رحمت کا انھیں ڈاھانپ لینا۔
٭ارکان نماز اور بہترین قراءت سیکھنے کی مشق کرنا۔
٭شعائر اسلام کا اظہار کرنا۔
٭عبادت کےلیے جمع ہوکر شیطان کو ذلیل خوار کرنا۔
٭صفتِ نفاق سے سلامت رہنا۔
٭ امام کے ساتھ سلام کا جواب دینا۔
٭اجتماعی طور پر ذکرو دعا میں مصروف ہونا۔
٭پانچ وقت نطم جماعت کو برقرار رکھنا۔
٭امام کی قراءت کو توجہ سے سننا۔
٭آمین بالجہرکہنا۔
یہ ستائیس خصلتیں ایسی ہیں کہ انفرادی طور پر ان کی فضیلتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں،اور یہ تمام خصلتیں نماز باجماعت کے اہتمام میں اجتماعی طور پر پائی جاتی ہیں۔
(فتح الباري: 174/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 645   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.