(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم صائما في العشر قط ". قال ابو عيسى: هكذا روى غير واحد عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، وروى الثوري وغيره هذا الحديث، عن منصور، عن إبراهيم، ان النبي صلى الله عليه وسلم " لم ير صائما في العشر ". وروى ابو الاحوص، عن منصور، عن إبراهيم، عن عائشة ولم يذكر فيه عن الاسود، وقد اختلفوا على منصور في هذا الحديث، ورواية الاعمش اصح واوصل إسنادا، قال: وسمعت محمد بن ابان، يقول: سمعت وكيعا، يقول: الاعمش احفظ لإسناد إبراهيم من منصور.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرَوَى الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمْ يُرَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ ". وَرَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ الْأَسْوَدِ، وَقَدِ اخْتَلَفُوا عَلَى مَنْصُورٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرِوَايَةُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ وَأَوْصَلُ إِسْنَادًا، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: الْأَعْمَشُ أَحْفَظُ لِإِسْنَادِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے رکھتے کبھی نہیں دیکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح کئی دوسرے لوگوں نے بھی بطریق «الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة» روایت کی ہے، ۲- اور ثوری وغیرہ نے یہ حدیث بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی» یوں روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا گیا، ۳- اور ابوالا ٔحوص نے بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی عن عائشہ» روایت کی اس میں انہوں نے اسود کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ۴- اور لوگوں نے اس حدیث میں منصور پر اختلاف کیا ہے۔ اور اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ متصل ہے، ۵- اعمش ابراہیم نخعی کی سند کے منصور سے زیادہ یاد رکھنے والے۔
وضاحت: ۱؎: بظاہر اس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ان دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے، خاص کر یوم عرفہ کے روزہ کی بڑی فضیلت وارد ہے، ویسے بھی ان دنوں کے نیک اعمال اللہ کو بہت پسند ہیں اس لیے اس حدیث کی تاویل کی جاتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دنوں روزہ نہ رکھنا ممکن ہے بیماری یا سفر وغیرہ کسی عارض کی وجہ سے رہا ہو، نیز عائشہ رضی الله عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ فی الواقع روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 756
اردو حاشہ: 1؎: بظاہر اس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ان دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے، خاص کر یوم عرفہ کے روزے کی بڑی فضیلت وارد ہے، ویسے بھی ان دنوں کے نیک اعمال اللہ کو بہت پسند ہیں اس لیے اس حدیث کی تاویل کی جاتی کہ نبی اکرم ﷺ کا ان دنوں روزہ نہ رکھنا ممکن ہے بیماری یا سفر وغیرہ کسی عارض کی وجہ سے رہا ہو، نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ فی الواقع روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 756