الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
9. باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
9. باب: ہر شہر والوں کے لیے انہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔
Chapter: What Has Been Related About: For The People OF Every Land There Is A Sighting
حدیث نمبر: 693
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثنا محمد بن ابي حرملة، اخبرني كريب، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل علي هلال رمضان وانا بالشام، فراينا الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني ابن عباس ثم ذكر الهلال، فقال: متى رايتم الهلال؟ فقلت: رايناه ليلة الجمعة، فقال: اانت رايته ليلة الجمعة؟ فقلت: رآه الناس وصاموا وصام معاوية، قال: لكن رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما او نراه، فقلت: الا تكتفي برؤية معاوية وصيامه؟ قال: لا، هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم ان لكل اهل بلد رؤيتهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.
کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ رضی الله عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا، تو ہم برابر روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کر لیں، یا ہم ۲۹ کا چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خود چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 5 (1087)، سنن ابی داود/ الصیام 9 (2332)، سنن النسائی/الصیام 7 (2113)، (تحفة الأشراف: 6357)، مسند احمد (1/306) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتا ہے کہ «صوموا» اور «افطروا» کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنہوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1021)

   سنن النسائى الصغرى1558موضع إرسالأمرهم أن يفطروا بعد ما ارتفع النهار وأن يخرجوا إلى العيد من الغد
   جامع الترمذي693موضع إرسالرأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما أو نراه فقلت ألا تكتفي برؤية معاوية وصيامه قال لا هكذا أمرنا رسول الله
   سنن أبي داود2339موضع إرسالاختلف الناس في آخر يوم من رمضان فقدم أعرابيان فشهدا عند النبي بالله لأهلا الهلال أمس عشية فأمر رسول الله الناس أن يفطروا
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 693 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 693  
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رؤیت ضروری ہے،
محض فلکی حساب کافی نہیں،
رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ ((صُوْمُوْا)) اور ((اَفْطِرُوْا)) کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو،
جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں،
اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے،
اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 693   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1558  
´عیدالفطر کی نماز کے لیے (کسی سبب سے) دوسرے دن نکلنے کا بیان۔`
ابو عمیر بن انس اپنے ایک چچا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عید کا چاند دیکھا تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (اور آپ سے اس کا ذکر کیا) آپ نے انہیں دن چڑھ آنے کے بعد حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں، اور عید کی نماز کی لیے کل نکلیں۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1558]
1558۔ اردو حاشیہ:
روزہ کھول دینے کا حکم دیا گویا ضروری نہیں کہ سب لوگ یا ہر شہر اور بستی والے چاند دیکھیں بلکہ کچھ لوگ چاند دیکھ لیں تو وہ دوسرے لوگوں اور شہروں کے لیے بھی کافی ہو گا۔ ظاہر یہی ہے کہ چاند دیکھنے والے مذکورہ لوگ مدینہ سے باہر کے ہوں گے ورنہ وہ رات کے وقت ہی آپ کو اطلاع کر دیتے۔ اگر مدینے سے باہر والے لوگوں کا چاند دیکھنا مدینہ منورہ والوں کے لیے کافی ہے تو دیگر شہروں کے لیے بھی یہی حکم ہو گا، الایہ کہ مطلع میں اتنا فرق ہو کہ چاند نظر آنے میں ایک دن یا زائد کا فرق ممکن ہو۔ اس صورت میں ان کا حساب الگ ہو گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ چاند کی اطلاع جب بھی ملے، اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ روزہ رکھنے کی صورت میں اسے کھولنا واجب ہو گا۔ اگر اسی دن عید پڑھنا ممکن ہو تو اسی دن زوال سے قبل عید پڑھی جائے گی اور اگر زوال سے پہلے عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ چونکہ چاند کی رؤیت میں عموماً ایک ہی دن کا فرق ممکن ہے، لہٰذا ایک دن سے زائد نماز عید مؤخر نہ کی جائے۔ احادیث میں بھی ایک ہی دن کا ذکر ہے۔ اس مسئلے میں دونوں عیدیں برابر ہیں۔
➋ اگر بارش یا اندھیری وغیرہ کی وجہ سے اصل دن عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو بھی یہی حکم ہے۔
نماز عید کے لیے نکلنے کا اصل یہی ہے کہ نماز عید آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھی جائے کہ اس میں شان و شوکت کا زیادہ اظہار ہے۔ اور یہ بھی عید کا ایک مقصدہے۔ بعض حضرات نے اس حکم کی علت یہ قرار دی ہے کہ چونکہ مسجد میں پوری آبادی کے لوگ سما نہیں سکتے، اس لیے جگہ کی تنگی کے پیش نظر باہر نکلنے کا حکم دیا۔ گویا اگر کہیں مسجد اور اس کے ساتھ اتنی جگہ خالی ہو کہ تمام لوگ اس میں آرام سے نماز پڑھ سکیں تو نماز عید مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ حرمین (بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی شریف) میں ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ مذکورہ حکم کی علت یہی ہو، لہٰذا سنت نبوی پر عمل ہی اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1558   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2339  
´شوال کے چاند کی رویت کے لیے دو آدمیوں کی گواہی کا بیان۔`
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں رمضان کے آخری دن لوگوں میں (چاند کی رویت پر) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2339]
فوائد ومسائل:
رمضان المبارک کا چاند ہو جانے کا یقین یا تو شعبان کے تیس دن پورے ہو جانے پر ہے یا لوگوں کی گواہی پر کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے، خواہ کوئی ایک عادل مسلمان ہی ہے، جیسے کہ اگلے باب کی احادیث میں آ رہا ہے۔
اسی طرح انتہائے رمضان کے موقع پر بھی۔
تاہم عام فقہاء عادل مسلمانوں کی رؤیت کو ضروری سمجھتے ہیں جبکہ ابوثور، ابوبکر بن منذر، اہل ظاہر اور امام حسن کی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سے ایک روایت میں ایک مسلمان کی رؤیت کو بھی حجت سمجھا گیا ہے۔
علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ کی ترجیح بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ روزے چھوڑنے کے موقع پر دو آدمیوں کی گواہی کسی معیاری دلیل سے ثابت نہیں۔
مالی معاملات ہی ایسے ہیں جہاں دو گواہ لازم ہوتے ہیں۔
مگر روزوں کے متعلق صریح حکم ہے کہ چاند دیکھ کر رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
اور عبادت میں خبر واحد معتبر ہوتی ہے۔
(فقه السنة للسيد سابق‘ بم يثبت الشهر‘ ونيل الأوطار‘ باب ما يثبت به الصوم والفطر من الشهور) نیز عید کا چاند ہونے کی خبر اگر دیر سے ملے اور عید کے لیے جمع ہونا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز پڑھ لی جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2339   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.