الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
164. باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي لأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فِي الصَّلاَةِ فَأُخَفِّفُ
164. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نماز میں بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Prophet (S) Saying: "I Hear The Crying Of A Small Boy During Salat and Shorten It"
حدیث نمبر: 376
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري، عن حميد، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " والله إني لاسمع بكاء الصبي وانا في الصلاة فاخفف مخافة ان تفتتن امه " قال: وفي الباب عن ابي قتادة , وابي سعيد , وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ فَأُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَتَنَ أُمُّهُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی! جب نماز میں ہوتا ہوں اور اس وقت بچے کا رونا سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہو جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوقتادہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/الأذان 65 (709، 710)، صحیح مسلم/الصلاة 37 (470)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 49 (989)، (تحفة الأشراف: 772) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو ایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت نماز ہلکی کر دینی چاہیئے، تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اور چلانے سے گھبرا نہ جائیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (989)

   صحيح البخاري709أنس بن مالكأدخل في الصلاة وأنا أريد إطالتها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي مما أعلم من شدة وجد أمه من بكائه
   صحيح البخاري708أنس بن مالكيسمع بكاء الصبي فيخفف مخافة أن تفتن أمه
   صحيح البخاري710أنس بن مالكأدخل في الصلاة فأريد إطالتها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز مما أعلم من شدة وجد أمه من بكائه
   صحيح مسلم1055أنس بن مالكيسمع بكاء الصبي مع أمه وهو في الصلاة فيقرأ بالسورة القصيرة
   صحيح مسلم1056أنس بن مالكأدخل الصلاة أريد إطالتها فأسمع بكاء الصبي فأخفف من شدة وجد أمه به
   جامع الترمذي376أنس بن مالكأسمع بكاء الصبي وأنا في الصلاة فأخفف مخافة أن تفتتن أمه
   سنن ابن ماجه989أنس بن مالكأدخل في الصلاة وأنا أريد إطالتها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي مما أعلم لوجد أمه ببكائه
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 376 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 376  
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو ایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت نماز ہلکی کردینی چاہئے،
تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اور چلانے سے گھبرا نہ جائیں۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 376   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث989  
´دوران نماز حادثہ پیش آ جانے پر نماز ہلکی کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز شروع کرتا ہوں اور لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو نماز اس خیال سے مختصر کر دیتا ہوں کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 989]
اردو حاشہ:
فائدہ:

(1)
نماز کے طویل یا مختصر کرنے سے قراءت کو طویل یا مختصر کرنا مراد ہے۔
دوسرے ارکان کے اذکار میں بھی کسی حد تک اختصار ممکن ہے۔

(2)
امام کو مقتدیوں کے حالات کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(3)
عورتیں مسجد میں آ کر باجماعت نماز ادا کرسکتی ہیں اور اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو بھی لاسکتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 989   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1056  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں لمبی نماز پڑھنے کے ارادے سے نماز شروع کرتا ہوں، پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس کے رونے کی وجہ سے ماں کے شدید غم میں مبتلا ہونے کی وجہ (کے ڈر) سے ہلکی نماز پڑھا دیتا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1056]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
وَجْدٌ:
غم وحزن۔
فوائد ومسائل:
اثنائے نماز میں کسی تخفیف کے طالب کام کے پیدا ہوجانے سے امام نماز میں تخفیف کر سکتا ہے،
جب کہ وہ کام ایسا ہو جو مقتدیوں کے لیے یا ان میں سے بعض کے لیے نماز سے مشغولیت اور غفلت کا سبب بنتا ہو،
آپﷺ نے بچے کے رونے کو ماں کے نماز سے مشغول ہونے کے سبب (کہ وہ اس سے محبت کی بنا پر اس کے رونے سے غم وحزن میں مبتلا ہو کرنماز پر توجہ نہیں دے سکی)
نماز میں تخفیف کی ہے،
اس پر قیاس کرتے ہوئے علماء نے لکھا ہے نامعلوم نمازیوں کو رکعت میں شریک کرنے کے لیے قیام کو کچھ طویل بھی کیا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1056   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 708  
708. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو نبی ﷺ سے زیادہ مختصر اور اسے مکمل طر پر ادا کرنے والا ہو۔ بےشک آپ بچے کا گریہ سن کر نماز کو ہلکا کر دیتے تھے مبادا اس کی ماں پریشان ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:708]
حدیث حاشیہ:
یعنی آپ ﷺ کی نماز باعتبار قرات کے تو ہلکی ہوتی، چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور ارکان یعنی رکوع سجدہ وغیرہ پورے طور سے ادا فرماتے جو لوگ سنت کی پیروی کرنا چاہیں۔
ان کو امامت کی حالت میں ایسی ہی نماز پڑھانی چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 708   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 710  
710. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نماز شروع کرتے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے میں محسوس کرتا ہوں کہ ماں کی مامتا تڑپ جائے گی۔ (راوی حدیث) موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، اسے قتادہ نے، پھر اس نے حضرت انس سے اسے بیان کیا۔ حضرت انس ؓ نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:710]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث سے آپ ﷺ کی شفقت ظاہر ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں عورتیں بھی شریک جماعت ہوا کرتی تھیں، ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں ساٹھ آیات کو پڑھا۔
پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر آپ نے اتنا اثر لیا کہ دوسری رکعت میں صرف تین آیات پڑھ کر نماز کو پورا کردیا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 710   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:708  
708. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو نبی ﷺ سے زیادہ مختصر اور اسے مکمل طر پر ادا کرنے والا ہو۔ بےشک آپ بچے کا گریہ سن کر نماز کو ہلکا کر دیتے تھے مبادا اس کی ماں پریشان ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:708]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے سابقہ عنوانات میں مقتدی حضرات کی رعایت کرتے ہوئے نماز میں تخفیف کردینے کا ذکر تھا۔
اس باب میں ایسی روایات پیش کی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مقتدی حضرات کے علاوہ دوسرے لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے بھی نماز کا مختصر کیا جاسکتا ہے لیکن غیر مقتدی کا کسی نہ کسی طرح مقتدی سے تعلق ضرور ہوتا ہے جیسا کہ اس روایت میں ہے کیونکہ نماز میں تخفیف کا سبب اگرچہ بچے کا رونا ہے لیکن درحقیقت اس کا تعلق ماں کی مامتا سے ہے، گویا تخفیف ماں کی خاطر ہی کی جارہی ہے۔
(فتح الباري: 262/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 708   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:709  
709. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: میں نماز کے آغاز کے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کا رونا سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو پریشانی اور تشویش لاحق ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:709]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے:
٭عورتیں مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرسکتی ہیں۔
٭ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے اور ان کی احوال گیری کرتے رہتے تھے۔
٭اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ بچے کہ رونے سے ماں کا پریشان ہونا بیان ہوا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ بچہ ماں کے ساتھ ہی ہو بلکہ ممکن ہے کہ مسجد کے ساتھ اس کا گھر ہو اور مسجد گھر سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہو۔
(فتح الباري: 262/2)
لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی یہ توجیہ محل نظر ہے کیونکہ مسجد کے آس پاس گھر تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے تھے جن کے ہاں اولاد نہیں تھی۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 709   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:710  
710. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نماز شروع کرتے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے میں محسوس کرتا ہوں کہ ماں کی مامتا تڑپ جائے گی۔ (راوی حدیث) موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، اسے قتادہ نے، پھر اس نے حضرت انس سے اسے بیان کیا۔ حضرت انس ؓ نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:710]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں جو وضاحت فرمائی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ حضرت قتادہ کا حضرت انس سے سماع ثابت ہے۔
اس سے تدلیس کا کا شعبہ ختم ہوگیا۔
موسیٰ سے مراد ابو سلمہ موسیٰ بن اسماعیل تبوذکی ہیں۔
ان کے استاد حضرت ابان بن یزید العطار ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 710   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.