الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
4. باب فِي مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ كَمْ كَانَ حِينَ بُعِثَ
4. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت اور بعثت کے وقت آپ کی عمر کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3623
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس. ح وحدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن , انه سمع انسا يقول: " لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالطويل البائن ولا بالقصير المتردد، ولا بالابيض الامهق، ولا بالآدم، وليس بالجعد القطط ولا بالسبط، بعثه الله على راس اربعين سنة، فاقام بمكة عشر سنين، وبالمدينة عشر سنين، وتوفاه الله على راس ستين سنة وليس في راسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. ح وَحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّهُ سَمِعَ أنَسًا يَقُولُ: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ، وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت لمبے قد والے تھے نہ بہت ناٹے اور نہ نہایت سفید، نہ بالکل گندم گوں، آپ کے سر کے بال نہ گھنگرالے تھے نہ بالکل سیدھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیسویں سال کے شروع میں مبعوث فرمایا، پھر مکہ میں آپ دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس اور ساٹھویں برس ۱؎ کے شروع میں اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں رہے ہوں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3547، و3548)، واللباس 68 (5900)، صحیح مسلم/الفضائل 31 (2347) (تحفة الأشراف: 833) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ ساٹھ (۶۰) برس کے تھے ان لوگوں نے کسور عدد کو چھوڑ کر صرف دہائیوں کے شمار پر اکتفا کیا ہے، اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ پینسٹھ سال کے تھے تو ان لوگوں نے سن وفات اور سن پیدائش کو بھی شمار کر لیا ہے، لیکن سب سے صحیح قول ان لوگوں کا ہے جو ترسٹھ (۶۳) برس کے قائل ہیں، کیونکہ ترسٹھ برس والی روایت زیادہ صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل رقم (1)، وقد مضى شطره الأول (1823)

   صحيح البخاري3548أنس بن مالكليس بالطويل البائن ولا بالقصير لا بالأبيض الأمهق وليس بالآدم ليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة أقام بمكة عشر سنين بالمدينة عشر سنين توفاه الله ليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء
   صحيح البخاري5906أنس بن مالكضخم اليدين لم أر بعده مثله شعر النبي رجلا لا جعد ولا سبط
   صحيح البخاري3547أنس بن مالكربعة من القوم ليس بالطويل ولا بالقصير أزهر اللون ليس بأبيض أمهق ولا آدم ليس بجعد قطط ولا سبط رجل أنزل عليه وهو ابن أربعين لبث بمكة عشر سنين ينزل عليه بالمدينة عشر سنين قبض وليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء
   صحيح البخاري5900أنس بن مالكليس بالطويل البائن ولا بالقصير ليس بالأبيض الأمهق وليس بالآدم ليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة فأقام بمكة عشر سنين بالمدينة عشر سنين توفاه الله على رأس ستين سنة ليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء
   صحيح البخاري5907أنس بن مالكضخم اليدين والقدمين حسن الوجه لم أر بعده ولا قبله مثله بسط الكفين
   صحيح البخاري3550أنس بن مالككان شيء في صدغيه
   صحيح مسلم6054أنس بن مالكأزهر اللون كأن عرقه اللؤلؤ إذا مشى تكفأ لا مسست ديباجة ولا حريرة ألين من كفه لا شممت مسكة ولا عنبرة أطيب من رائحته
   صحيح مسلم6089أنس بن مالكليس بالطويل البائن ولا بالقصير ليس بالأبيض الأمهق ولا بالآدم لا بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة أقام بمكة عشر سنين بالمدينة عشر سنين توفاه الله على رأس ستين سنة ليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء
   جامع الترمذي3623أنس بن مالكلم يكن رسول الله بالطويل البائن ولا بالقصير المتردد لا بالأبيض الأمهق ولا بالآدم وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة أقام بمكة عشر سنين بالمدينة عشر سنين توفاه الله على رأس ستين سنة ليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة
   جامع الترمذي1754أنس بن مالكليس بالطويل ولا بالقصير حسن الجسم أسمر اللون شعره ليس بجعد ولا سبط إذا مشى يتوكأ
   سنن النسائى الصغرى5090أنس بن مالكلم يكن يخضب الشمط عند العنفقة يسيرا وفي الصدغين يسيرا وفي الرأس يسيرا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم622أنس بن مالكليس بالطويل البائن ولا بالقصير، وليس بالابيض الامهق وليس بالآدم
   المعجم الصغير للطبراني861أنس بن مالك ربعة من القوم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير ، وكان أزهر ليس بالأبيض الأمهق ولا بالآدم ، وكان رجل الشعر ، ليس بالجعد القطط ولا بالسبط ، بعث وهو ابن أربعين ، فأقام بمكة عشرا وبالمدينة عشرا ، ومات وهو ابن ستين ليس فى رأسه ، ولا فى لحيته عشرون شعرة بيضاء
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3623 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3623  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپﷺ ساتھ (60) برس کے تھے ان لوگوں نے کسور عدد کو چھوڑ کر صرف دہائیوں کے شمار پر اکتفا کیا ہے،
اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ پینسٹھ سال کے تھے تو ان لوگوں نے سن وفات اور سن پیدائش کو بھی شمار کر لیا ہے،
لیکن سب سے صحیح قول ان لوگوں کا ہے جو ترسٹھ (63) برس کے قائل ہیں،
کیوں کہ ترسٹھ برس والی روایت زیادہ صحیح ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3623   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 622  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان`
«. . . عن انس بن مالك انه سمعه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير، وليس بالابيض الامهق وليس بالآدم . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے تھے، آپ نہ بالکل سیدھے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 622]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3548، ومسلم 2347، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث میں صرف دہائیاں بیان کی گئی ہیں جبکہ دوسری صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63) سال کی عمر میں وفات پائی۔ دیکھئے [صحيح بخاري 3536، وصحيح مسلم 2349]
➋ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمام لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والے تھے اور خلقت میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ [صحيح بخاري: 3549 و صحيح مسلم: 2336، دارالسلام 6066]
آپ کا چہرہ مبارک چاند کی طرح خوبصورت تھا۔ [صحيح بخاري: 3552] مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [الرسول كانك تراه] (آئینہ جمال نبوت) یہ کتاب میری تحقیق سے چھپ چکی ہے۔ والحمدللہ
➌ اللہ کی مخلوقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ، سب سے افضل، سب سے خوبصورت اور صفاتِ عالیہ میں سب سے بلند ہیں۔ فداہ أبی و أمی
➍ دین اسلام مکمل حالت میں ہم تک پہنچا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت، سیرت، سنت، احکام اور تقریرات سب محفوظ و مدوّن ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 159   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5090  
´پیلا (زرد) خضاب لگانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خضاب نہیں لگاتے تھے، کیونکہ تھوڑی سی سفیدی آپ کے ہونٹ کے نیچے تھے، تھوڑی سی کان کے پاس ڈاڑھی میں اور تھوڑی سی سر میں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5090]
اردو حاشہ:
ڈاڑھی بچہ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کی درمیان جگہ کے بالوں کوکہتے ہیں۔ سفیدی عموماً یہیں سےشروع ہوتی ہے یا کنپٹیوں سے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5090   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6054  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، چمکدار تھا اور آپ ﷺ کا پسینہ گویا موتی ہے، (صفائی اور سفیدی میں) جب آپ چلتے، آگے کو جھک کر چلتے اور میں نے کوئی دیباج یا کوئی ریشم رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں چھوا اور نہ کوئی کستوری یا عنبر رسول اللہ کے بدن کی خوشبو سے بہتر سونگھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6054]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے،
آپ کا رنگ انتہائی خوبصورت اور بدن انتہائی نرم اور گداز تھا اور اس سے انتہائی معطر پسینہ نکلتا تھا،
جس کے قطرے موتی کی طرح صاف شفاف اور سفید ہوتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6054   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6089  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نہ بہت دراز قد تھے او رنہ پست قد اور نہ چونے جیسے سفید اور نہ بالکل گندمی، اور نہ سخت گھنگھریالے بال تھے اور نہ بالکل کھلے، سیدھے، چالیس پورے ہونے پر اللہ نے آپﷺ کو مبعوث فرمایا، مکہ میں دس سال ٹھہرے اور مدینہ میں دس سال رہے، اللہ نے آپ کو ساٹھ سال کی عمر میں اپنے پاس بلا لیا اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6089]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بائن:
لمبا تڑنگ،
بہت دراز قد۔
(2)
الامهق:
چونے کی طرح چٹا۔
(3)
آدم:
بالکل گندمی،
سیاہی مائل کیونکہ آپ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا،
جس کو اسمر يا ازهر کہہ دیتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
آپ ربیع الاول میں پیدا ہوئے اور اس ماہ میں سچے خوابوں کا آغاز ہوا،
اگرچہ وحی کا نزول رمضان میں شروع ہوا،
اگر بعثت کا آغاز رمضان سے کیا جائے تو عمر ساڑھے انتالیس یا ساڑھے چالیس سال بنے گی،
آدھے سال کو نظرانداز کرنے پر چالیس ہو گی،
مکہ میں وحی کی آمد کی مدت دس سال ہے،
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس کو شمار کیا یا تین سال کی کسر کو نظرانداز کر دیا،
جس طرح بعض نے اس کو پورا کر کے آپ کی عمر کو پینسٹھ سال بنا دیا،
حضرت انس رضی اللہ عنہ آگے خود آپ کی وفات تریسٹھ سال کی عمر میں بتاتے ہیں،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
اس حدیث میں انہوں کسر کے تین سال نظرانداز کر دئیے ہیں۔
یا فترت الوحی تین سال کے عرصہ کو نکال دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6089   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3547  
3547. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی صورت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ﷺ آدمیوں میں متوسط تھے، نہ درازقد اور نہ پست قامت آپ کا رنگ چمک دار تھا، نہ خالص سفید اور نہ نراگندمی۔ آپ کے بال بھی درمیانے درجے کے تھے، نہ سخت پیچ دار(گھنگریالے)اور نہ بہت سیدھے۔ چالیس سال کی عمر میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔ آپ دس سال مکہ میں رہے وحی نازل ہوتی رہی اور دس برس مدینہ میں رہے۔ جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے سراور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ (راوی حدیث)ربیعہ بن عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے بالوں میں سے ایک بال دیکھا تو وہ سرخ تھا۔ میں نے پوچھا تو کہا گیا کہ یہ بال خوشبو کے استعمال سے سرخ ہو گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3547]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے شروع ہونے کے بعد تقریباً تین سال ایسے گزرے جن میں آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔
اسے '' فترۃ '' کا زمانہ کہتے ہیں۔
راوی نے بیچ کے ان سالوں کو حذف کردیا جن میں سلسلہ وحی کے شروع ہونے کے بعد وحی نہیں آئی تھی۔
آپ کی نبوت کے بعد قیام مکہ کی کل مدت تیرہ سال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3547   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3550  
3550. حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے کبھی خضاب بھی استعمال کیا تھا؟انھوں نے فرمایا: نہیں، صرف آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3550]
حدیث حاشیہ:
مگر ابورمشہ کی روایت میں جس کو حاکم اور اصحاب سنن نے نکالا ہے، یہ ہے کہ آپ کے بالوں پر مہندی کا خضاب تھا۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ آپ زرد خضاب لگاکرتے تھے اور احتمال ہے کہ آپ نے مہندی بطریق خوشبو لگائی ہو۔
اسی طرح زعفران بھی، ان لوگوں نے اس کو خضاب سمجھا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے خضاب نہ دیکھا ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3550   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3548  
3548. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نہ دراز قد تھے نہ پست قامت جبکہ آپ کا قد درمیانہ تھا۔ آپ کا رنگ نہ تو چونے کی طرح خالص سفید اور نہ گندمی کہ سانولانظر آئے بلکہ گورا چمکدار تھا۔ آپ کے بال نہ زیادہ پیچ دار(گھنگریالے) اور نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے بلکہ ہلکا ساخم لیے ہوئے تھے۔ آپ پر وحی کا آغاز چالیس برس کی عمرمیں ہوا۔ پھر اس کے بعد آپ دس سال مکہ مکرمہ میں رہے اور دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا: وفات کے وقت آپ کے سرداڑھی مبارک میں بمشکل بیس بال سفید تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3548]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی شروع ہونے کے بعد تقریباً تین سال ایسے گزرے ہیں جن میں آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔
اسے زمانہ فترت کہا جاتا ہے راوی نے قیام مکہ سے ان سالوں کو حذف کردیا جن میں آپ پر وحی کے شروع ہونے کے بعد وحی نہیں آئی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد مکہ ٹھہرنے کی کل مدت تیرہ برس ہے کیونکہ وفات کے وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی جبکہ دس سال آپ کا مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔
زمانہ وحی تیس برس ہے۔
ان احادیث میں پُر جمال قدو قامت پرکشش رنگ اور آپ کے خوبصورت بالوں کا بیان ہے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین خوبصورت سڈول ساخت نہ زیادہ لمبے اور نہ بالکل چھوٹے تھے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3549)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک بہت لمبا نہیں تھا البتہ جب کسی مجمع میں ہوتے تو دوسروں سے قدنکلتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد: 415/1)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آپ کا جسم مبارک ترو تازہ قد مبارک نہ زیادہ لمبا اور نہ بالکل پست۔
جب لوگوں سے الگ اکیلے چل رہے ہوتے تو درمیانہ قد معلوم ہوتے تھے۔
(دلائل النبوة للأصفهاني: 563)
حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک لمبے تڑنگے آدمی سے چھوٹا اور متوسط قامت والے سے کچھ نکلا ہوا تھا۔
(شمائل الترمذي، ص: 20)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت پرکشش سفید سرخی مائل تھی کیونکہ یہ رنگ انتہائی خوبصورت ہوتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید چمک دار تھا کثرت سفراور دھوپ کی وجہ سے کبھی کبھی گوری رنگت میں ہلکی سی گندمی رنگت کی جھلک معلوم ہوتی تھی۔
(دلائل النوة: 202/1)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے زیبا(چہرہ مبارک)
سفید ہلکی سی سرخی لیے ہوئے تھا۔
(مسند أحمد: 96/1)
ان مختلف روایات میں امام بیہقی ؒنے اس طرح تطبیق دی ہے جسم مبارک کا وہ حصہ جو دھوپ اور ہوا میں کھلا رہتا وہ سرخی مائل اور جو حصہ کپڑوں میں چھپا رہتا وہ سفید چمکدار تھا۔
(فتح الباري: 696/6)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے متعلق حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ وہ کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے یعنی قدرے خمیدہ (گھنگھریالے تھے۔
)
(دلائل النبوة: 202/1)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی خوبصورت منظر کشی بڑے دلکش انداز میں کی ہے فرماتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک خوبصورت اور قدرے خمدار تھے نہ بالکل سیدھے اور نہ زیادہ پیچدارجب ان میں کنگھی کرتے تو ہلکی ہلکی لہروں کی صورت اختیار کر لیتے جیسا کہ ریت کے ٹیلے یا پانی کے تالاب میں ہوا چلنے سے وہ ابھرآتی ہیں اور جب کچھ وقت کنگھی نہ کرتے تو آپس میں مل کر انگوٹھی کی طرح حلقوں کا روپ دھار لیتے۔
(دلائل النبوة: 298/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3548   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3550  
3550. حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے کبھی خضاب بھی استعمال کیا تھا؟انھوں نے فرمایا: نہیں، صرف آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3550]
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا۔
آپ کے زیریں لب اور ٹھوڑی کے درمیان اور سر میں چند بال سفید تھے۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6077 (2341)
آپ کے اس قدر بال سفید نہ تھے کہ انھیں خضاب لگا کر رنگنے کی ضرورت پڑتی لیکن دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں کو خضاب لگایا کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 163/4)
حضرت ابورمثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آیا تو آپ نے اپنی ڈاڑھی پر مہندی لگا رکھی تھی۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4208)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کو ورس زعفران سے زرد فرمایا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4210)
ان مختلف روایات میں تطبیق کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں:
۔
مختلف روایات کو مختلف حالات پر محمول کیا جائے،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی اپنے بالوں کو خضاب لگایا اور اکثر اوقات خضاب کے بغیر ہی رہنے دیا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اکثرحالات کو پیش نظر رکھا جبکہ دوسرے حضرات نے کبھی کبھار کی حالت کو بیان کردیا۔
(شرح صحیح مسلم للنووی: 209/2)
انکارو اثبات کی صورت میں اثبات کو مقدم کیاجاتا ہے کیونکہ کسی چیز کو ثابت کرنے والے کے پاس اضافی معلومات ہوتی ہیں جونفی کرنے والے کے پاس نہیں ہوتیں۔
خاص طور پر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کو مقدم کیاجائے گا کیونکہ ظن غالب ہے کہ انھوں نے اپنی ہمشیر ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خضاب کے متعلق معلومات حاصل کی ہوں گی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک کو صاف کرتے دھوتے اور کنگھی کرتے وقت بالوں کا مشاہدہ ک رتی رہتی تھیں۔
یہ معلومات حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ تھیں۔
(فتح الباري: 354/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3550   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5900  
5900. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو انتہائی دراز قد تھے اور نہ بہت پست قامت نہ بہت سفید رنگت والے اور نہ گندم گوں تھے۔ آپ کے بال سخت پہچدار الجھے ہوئے نہ تھے اور نہ بالکل سیدھے ہی۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں رسول بنایا۔ پھر دس سال تک مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا اور دس سال ہی مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ تقریباًساٹھ سال کی عمر میں آپ کو وفات دی۔ اس وقت آپ کے سر ڈاڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5900]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی خوبصورت منظر کشی بڑے دل کش انداز میں بیان کی ہے۔
انہوں نے فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک خوبصورت اور قدرے خمدار تھے، نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے اور نہ ہی زیادہ پیچ دار۔
جب ان میں کنگھی کرتے تو ہلکی ہلکی لہریں بن جاتیں جیسا کہ ریت کے ٹیلے یا تالاب میں ہوا چلنے سے لہریں ابھر آتی ہیں اور جب کچھ دن کنگھی نہ کرتے تو بال آپس میں مل کر انگوٹھی کی طرح حلقوں کی شکل اختیار کر لیتے۔
(دلائل النبوة: 298/1) (2)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کے متعلق جو اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان کی تائید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5900   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.