الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
77. باب وَمِنْ سُورَةِ الْغَاشِيَةِ
77. باب: سورۃ الغاشیہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3341
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فإذا قالوها عصموا مني دماءهم واموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله، ثم قرا: إنما انت مذكر {21} لست عليهم بمسيطر {22} سورة الغاشية آية 21-22 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ {21} لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَيْطِرٍ {22} سورة الغاشية آية 21-22 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں (جنگ جاری رکھو) جب تک کہ لوگ «لا إلہ إلا اللہ» کہنے نہ لگ جائیں، جب لوگ اس کلمے کو کہنے لگ جائیں تو وہ اپنے خون اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے، سوائے اس صورت کے جب کہ جان و مال دینا حق بن جائے تو پھر دینا ہی پڑے گا، اور ان کا (حقیقی) حساب تو اللہ ہی لے گا، پھر آپ نے آیت «إنما أنت مذكر لست عليهم بمصيطر» آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں (الغاشیہ: ۲۲)، پڑھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 8 (21/35) (تحفة الأشراف: 2744) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بظاہر اس باب کی حدیث اور اس آیت میں تضاد نظر آ رہا ہے، امام نووی فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قتال کا حکم نہیں تھا، بعد میں ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر، ابن ماجة (71)

   صحيح مسلم128جابر بن عبد اللهأمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوا لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله
   جامع الترمذي3341جابر بن عبد اللهأمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله
   سنن ابن ماجه3928جابر بن عبد اللهأمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوا لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله
   المعجم الصغير للطبراني590جابر بن عبد الله لا تمنوا لقاء العدو ، وسلوا الله العافية ، فإنكم لا تدرون ما تبتلون به منهم ، فإذا لقيتموهم ، فقولوا : اللهم ، أنت ربنا وربهم ، ونواصينا بيدك ، وإنما تقتلهم أنت ، ثم الزموا الأرض جلوسا ، فإذا غشوكم فانهضوا وكبروا ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : لأبعثن غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبانه ، لا يولي الدبر ، فلما كان الغد بعث عليا وهو أرمد شديد الرمد ، فقال : سر ، فقال : يا رسول الله ، ما أبصر موضع قدمي ، فتفل فى عينه ، وعقد له اللواء ، ودفع إليه الراية ، فقال على : على ما أقاتل يا رسول الله ؟ ، قال : على أن يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأني رسول الله ، فإذا فعلوا ذلك فقد حقنوا دماءهم وأموالهم إلا بحقها ، وحسابهم على الله عز وجل
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3341 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3341  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں (الغاشیة: 22)

2؎:
بظاہراس باب کی حدیث اور اس آیت میں تضاد نظر آ رہا ہے،
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قتال کا حکم نہیں تھا،
بعد میں ہوا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3341   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 128  
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم ملا ہے، کہ لوگوں سے جنگ لڑوں یہاں تک کہ وہ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ" کہیں، جب "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ" کہہ لیں گے، تو اس کے بعد میری طرف سے ان کے خون اور مال محفوظ ہیں اِلّا یہ کہ اس (کلمہ) کے حق کا تقاضا ہو، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ پھر آپ (ﷺ) نے پڑھا:بس آپؐ تو نصیحت کرنے والے ہیں۔ ان پر مسلّط (جبرکرنے والے) نہیں ہیں۔ (سورة الغاشية: 21،22) [صحيح مسلم، حديث نمبر:128]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مصنف سند میں کسی نام کے بعد (یَعْنِيْ)
یا(ھُوَ)
کا اضافہ کر کے کسی نام یا نسبت کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں اس طرف اشارہ ہوتاہے کہ مصنف کے استاد نے اس نام یا نسبت کو ذکر نہیں کیا تھا،
بلکہ مصنف نے توضیح وتعیین کےلیے ایسے کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 128   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.