(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن جابر بن سمرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يقرا في الظهر والعصر ب: السماء ذات البروج و السماء والطارق وشبههما " قال: وفي الباب عن خباب , وابي سعيد , وابي قتادة , وزيد بن ثابت , والبراء بن عازب، قال ابو عيسى: حديث جابر بن سمرة حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " قرا في الظهر قدر تنزيل السجدة " وروي عنه انه كان " يقرا في الركعة الاولى من الظهر قدر ثلاثين آية، وفي الركعة الثانية قدر خمس عشرة آية " وروي عن عمر انه كتب إلى ابي موسى، ان اقرا في الظهر باوساط المفصل، وراى بعض اهل العلم ان القراءة في صلاة العصر كنحو القراءة في صلاة المغرب، يقرا بقصار: المفصل وروي عن إبراهيم النخعي، انه قال: تعدل صلاة العصر بصلاة المغرب في القراءة، وقال إبراهيم: تضاعف صلاة الظهر على صلاة العصر في القراءة اربع مرار.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِ: السَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَ السَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَشِبْهِهِمَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ خَبَّابٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَبِي قَتَادَةَ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ " قَرَأَ فِي الظُّهْرِ قَدْرَ تَنْزِيلِ السَّجْدَةِ " وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ " يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنَ الظُّهْرِ قَدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ قَدْرَ خَمْسَ عَشْرَةَ آيَةً " وَرُوِي عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى، أَنِ اقْرَأْ فِي الظُّهْرِ بِأَوْسَاطِ الْمُفَصَّلِ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ كَنَحْوِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، يَقْرَأُ بِقِصَارِ: الْمُفَصَّلِ وَرُوِي عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: تَعْدِلُ صَلَاةُ الْعَصْرِ بِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ فِي الْقِرَاءَةِ، وقَالَ إِبْرَاهِيمُ: تُضَاعَفُ صَلَاةُ الظُّهْرِ عَلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ فِي الْقِرَاءَةِ أَرْبَعَ مِرَارٍ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ظہر اور عصر میں «وسماء ذات البروج»، «والسماء والطارق» اور ان جیسی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں خباب، ابوسعید، ابوقتادہ، زید بن ثابت اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے ظہر میں «الم تنزیل» یعنی سورۃ السجدہ کے بقدر قرأت کی، ۴- یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر اور دوسری رکعت میں پندرہ آیتوں کے بقدر قرأت کرتے تھے، عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی الله عنہ کو لکھا کہ تم ظہر میں «وساط مفصل» پڑھا کرو ۱؎، ۶- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ عصر کی قرأت مغرب کی قرأت کی طرح ہو گی، ان میں (امام) «قصار مفصل» پڑھے گا ۲؎، ۷- اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ظہر کی قرأت عصر کی قرأت سے چار گنا ہو گی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 981
´عصر کی پہلی دونوں رکعتوں کی قرأت کا بیان۔` جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر میں «والليل إذا يغشى» پڑھتے تھے، اور عصر میں اسی جیسی سورت پڑھتے، اور صبح میں اس سے زیادہ لمبی سورت پڑھتے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 981]
981 ۔ اردو حاشیہ: ظاہر اور عصر میں قرأت کے متعلق مختلف احادیث بیان ہوئی ہیں، ان میں تعارض نہیں بلکہ ان تمام روایات کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ظہر اور عصر میں درمیانی قرأت کرتے تھے، یعنی نہ بہت لمبی اور نہ بہت مختصر۔ اور صبح کی نماز میں قرأت لمبی کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 981