الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
Chapters On Inheritance
7. باب مِيرَاثِ الأَخَوَاتِ
7. باب: بہنوں کی میراث کا بیان۔
Chapter: The Inheritance of The Sisters
حدیث نمبر: 2097
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الفضل بن الصباح البغدادي، اخبرنا سفيان ابن عيينة، اخبرنا محمد بن المنكدر، سمع جابر بن عبد الله، يقول: " مرضت فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني فوجدني قد اغمي علي، فاتى ومعه ابو بكر وعمر، وهما ماشيان، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم فصب علي من وضوئه، فافقت، فقلت: يا رسول الله، كيف اقضي في مالي، او كيف اصنع في مالي، فلم يجبني شيئا، وكان له تسع اخوات حتى نزلت آية الميراث يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176الآية "، قال جابر: في نزلت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَجَدَنِي قَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَأَتَى وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي، أَوْ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي، فَلَمْ يُجِبْنِي شَيْئًا، وَكَانَ لَهُ تِسْعُ أَخَوَاتٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176الْآيَةَ "، قَالَ جَابِرٌ: فِيَّ نَزَلَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے آئے، آپ نے مجھے بیہوش پایا، آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی تھے، وہ پیدل چل کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی میرے اوپر ڈال دیا، میں ہوش میں آ گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ یا میں اپنے مال (کی تقسیم) کیسے کروں؟ (یہ راوی کا شک ہے) آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا - جابر رضی الله عنہ کے پاس نو بہنیں تھیں - یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» لوگ آپ سے (کلالہ ۱؎ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے: اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (النساء: ۱۷۶)۔ جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر النساء 4 (4577)، والمرضی 5 (5651)، والفرائض 13 (6743)، صحیح مسلم/الفرائض 2 (1616)، سنن ابی داود/ الفرائض 2 (2886)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 5 (2728) (تحفة الأشراف: 3028)، وسنن الدارمی/الطھارة 55 (739) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «کلالہ» وہ میت ہے جس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والد، صرف بھائی بہن وارث بن رہے ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2728)

   صحيح مسلم4147جابر بن عبد اللهكيف أصنع في مالي فلم يرد علي شيئا حتى نزلت آية الميراث
   جامع الترمذي2096جابر بن عبد اللهكيف أقسم مالي بين ولدي فلم يرد علي شيئا فنزلت يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين
   جامع الترمذي2097جابر بن عبد اللهكيف أقضي في مالي أو كيف أصنع في مالي فلم يجبني شيئ
   سنن أبي داود2891جابر بن عبد اللهيقضي الله في ذلك قال ونزلت
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2097 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2097  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کلالہ وہ میت ہے جس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والد،
صرف بھائی بہن وارث بن رہے ہوں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2097   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2891  
´صلبی (حقیقی) اولاد کی میراث کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو اسواف (مدینہ کے حرم) میں ایک انصاری عورت کے پاس پہنچے، وہ عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر آئی، اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! یہ دونوں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں، جو جنگ احد میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا سارا مال اور میراث لے لیا، ان کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! ان کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کے پاس مال نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2891]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
اور مذید فرمایا ہے کہ یہ لڑکیاں ثابت بن قیس کی نہیں ہیں۔
بلکہ سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھیں۔
جیسا کہ آگے آنے والی روایت میں بھی یہی ہے۔
کہ مذکورہ لڑکیاں حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹیاں تھیں۔
اور اس تقسیم میں اصل مسئلہ 24 سے بنے گا کہ 16 حصے دو تہائی بیٹیوں کے 3 حصے (آٹھواں حصہ) بیوی کا اور باقی 5 حصے چچا کو ملیں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2891   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2096  
´لڑکیوں کی موجودگی میں لڑکوں کی میراث کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کی غرض سے تشریف لائے اس وقت میں بنی سلمہ کے محلے میں بیمار تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنا مال اپنی اولاد ۱؎ کے درمیان کیسے تقسیم کروں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين» اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (النساء: ۱۱)۔ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2096]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اگلی روایت جو صحیحین کی ہے اس میں اولاد کی بجائے بہنوں کا تذکر ہ ہے،
اور صحیح واقعہ بھی یہی ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کی اس وقت تو اولاد تھی ہی نہیں،
اس لیے یہ روایت صحیح ہونے کے باوجود شاذ کی قبیل سے ہوئی (دیکھیے اگلی روایت)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2096   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4147  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی، جبکہ میں بیمار تھا، آپﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اور دونوں پیدل چل کر آئے، آپﷺ نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو میں ہوش میں آ گیا، میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ! میں اپنا مال کس طرح تقسیم کروں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4147]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے،
جب کوئی نیا مسئلہ آتا،
جس کے بارے میں آپ کے سامنے کوئی اجتہادی بات نہ ہوتی،
یا آپ اللہ کا صریح فرمان چاہتے،
تو وحی کا انتظار فرماتے،
جب تک صریح وحی نہ اترتی،
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں کوئی بات نہ ڈالی جاتی،
تو آپ خاموشی اختیار فرماتے،
وحی اترنے پر جواب دیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4147   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.