الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
24. باب تَرْكِ أَخْذِ الشَّعْرِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ
24. باب: جو قربانی کرنا چاہتا ہو وہ بال نہ کاٹے۔
Chapter: To Avoid Removing One's Hair For Those Who Want To Offer Sacrifice
حدیث نمبر: 1523
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحكم البصري , حدثنا محمد بن جعفر , عن شعبة , عن مالك بن انس , عن عمرو او عمر بن مسلم , عن سعيد بن المسيب , عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من راى هلال ذي الحجة , واراد ان يضحي , فلا ياخذن من شعره , ولا من اظفاره " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والصحيح هو عمرو بن مسلم , قد روى عنه محمد بن عمرو بن علقمة , وغير واحد , وقد روي هذا الحديث عن سعيد بن المسيب , عن ام سلمة , عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه نحو هذا , وهو قول بعض اهل العلم , وبه كان يقول سعيد بن المسيب , وإلى هذا الحديث ذهب احمد , وإسحاق , ورخص بعض اهل العلم في ذلك , فقالوا: لا باس ان ياخذ من شعره واظفاره , وهو قول الشافعي , واحتج بحديث عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث بالهدي من المدينة , فلا يجتنب شيئا مما يجتنب منه المحرم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ عَمْرٍو أَوْ عُمَرَ بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ , وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ , فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ , وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالصَّحِيحُ هُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ , قَدْ رَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ نَحْوَ هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَبِهِ كَانَ يَقُولُ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ , وَإِلَى هَذَا الْحَدِيثِ ذَهَبَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق , وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ , فَقَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ , وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ , وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْعَثُ بِالْهَدْيِ مِنْ الْمَدِينَةِ , فَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ مِنْهُ الْمُحْرِمُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کر لے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (عمرو اور عمر میں کے بارے میں) صحیح عمرو بن مسلم ہے، ان سے محمد بن عمرو بن علقمہ اور کئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے، دوسری سند سے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے، سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،
۳- بعض اہل علم کا یہی قول ہے، سعید بن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے،
۴- بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے، وہ لوگ کہتے ہیں: بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شافعی کا یہی قول ہے، وہ عائشہ رضی الله عنہا کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور مدینہ روانہ کرتے تھے اور محرم جن چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 7 (1977)، سنن ابی داود/ الضحایا 3 (2791)، سنن النسائی/الضحایا 1 (4367)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 11 (3149)، (تحفة الأشراف: 18152)، و مسند احمد (6/289، 301)، 311)، سنن الدارمی/الأضاحي 2 (1990) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عائشہ رضی الله عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3149)

   صحيح مسلم5118هند بنت حذيفةإذا دخل العشر وعنده أضحية يريد أن يضحي فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا
   صحيح مسلم5117هند بنت حذيفةإذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا
   صحيح مسلم5119هند بنت حذيفةإذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره
   صحيح مسلم5121هند بنت حذيفةمن كان له ذبح يذبحه فإذا أهل هلال ذي الحجة فلا يأخذن من شعره ولا من أظفاره شيئا حتى يضحي
   جامع الترمذي1523هند بنت حذيفةمن رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي فلا يأخذن من شعره ولا من أظفاره
   سنن أبي داود2791هند بنت حذيفةمن كان له ذبح يذبحه فإذا أهل هلال ذي الحجة فلا يأخذن من شعره ولا من أظفاره شيئا حتى يضحي
   سنن ابن ماجه3150هند بنت حذيفةمن رأى منكم هلال ذي الحجة فأراد أن يضحي فلا يقربن له شعرا ولا ظفرا
   سنن ابن ماجه3149هند بنت حذيفةإذا دخل العشر وأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره ولا بشره شيئا
   سنن النسائى الصغرى4366هند بنت حذيفةمن رأى هلال ذي الحجة فأراد أن يضحي فلا يأخذ من شعره ولا من أظفاره حتى يضحي
   سنن النسائى الصغرى4367هند بنت حذيفةمن أراد أن يضحي فلا يقلم من أظفاره ولا يحلق شيئا من شعره في عشر الأول من ذي الحجة
   سنن النسائى الصغرى4369هند بنت حذيفةإذا دخلت العشر فأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره ولا من بشره شيئا
   مسندالحميدي295هند بنت حذيفةإذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره، ولا بشره شيئا
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1523 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1523  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے گا۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1523   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4366  
´باب:`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ذی الحجہ کے مہینے کا چاند دیکھا پھر قربانی کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اپنے بال اور ناخن قربانی کرنے تک نہ لے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4366]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے قربانی کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو آدمی قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن وغیرہ کاٹے نہ تراشے۔
(3) چاند دیکھ لے۔ مقصد یہ ہے کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو جائے ورنہ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی اسے دیکھے۔
(4) ارادہ رکھتا ہو گویا جو شخص قربانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو، اس پر یہ پابندی نہیں مگر اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ قربانی کے دن ہی حجامت بنوائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4366   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4367  
´باب:`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نہ اپنے ناخن کترے اور نہ بال کٹوائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4367]
اردو حاشہ:
دس دن یعنی دسویں دن قربانی ذبح کرنے تک۔ قربانی ذبح کرنے کے بعد حجامت بنوا لینی چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4367   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2791  
´قربانی کا ارادہ کرنے والا ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں بال نہ کاٹے۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2791]
فوائد ومسائل:
قربانی کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔
کہ ذوالحج کے ابتدائی نو دنوں میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
لیکن جس نے قربانی نہ کرنی ہو۔
تو اس کے لئے ضروری نہیں۔
البتہ اگر وہ عید الاضحٰی کے دن حجامت وغیر ہ کرالے تو قربانی کی فضیلت وغیرہ سے محروم نہ رہے گا۔
جیسا کہ سابقہ روایات عبد اللہ بن عمرو بن العاص میں گزرا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2791   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3149  
´قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں کا کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو اسے اپنے بال اور اپنی کھال سے کچھ نہیں چھونا چاہیئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ بال نہ کاٹے اور جلد سے بال صاف نہ کرے۔
یہ پابندی ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہونے سے عید کے دن قربانی تک ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3149   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:295  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہے، وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد اپنے جسم کے کسی بھی حصے سے بال وغیرہ نہ کٹوائے، اور نہ ناخن تراشے۔ یادر ہے کہ ایک قربانی گھر میں موجود تمام افراد کی طرف سے کی جاتی ہے تو ان میں دنوں میں کوئی بھی فرد بال نہ کٹوائے اور نہ کوئی ناخن تراشے۔ جنھوں نے قربانی نہیں کرنی سے نے ان پر دس دنوں میں بال نہ کٹوانے کی کوئی پابندی نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ جس نے قربانی نہیں کرنی، اگر وہ بھی ان دس دنوں میں بال وغیرہ نہ کٹوائے تو اسے بھی مکمل قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ (سنن ابی داود: 2789، اسناده صحيح)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 295   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5117  
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے، تو تم میں سے جو شخص قربانی کرنا چاہے، وہ اپنے بالوں اور جسم کو نہ چھیڑے۔ سفیان سے پوچھا گیا، بعض راوی اس کو مرفوع بیان نہیں کرتے ہیں، انہوں نے کہا، لیکن میں مرفوع بیان کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5117]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے بعض ائمہ سعید بن المسیب،
ربیعہ،
احمد،
اسحاق اور بعض شوافع نے عشرہ ذی الحجہ میں بالوں اور ناخنوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیا ہے،
امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے،
یعنی ادب و احترام سے تعلق رکھتی ہے،
تاکہ حاجیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت پیدا ہو جائے،
امام مالک کا ایک قول ہے،
کہ یہ مکروہ ہے،
حرام نہیں ہے اور دوسرا قول ہے کہ مکروہ بھی نہیں ہے،
حدیث کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ ان کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے،
جسم کے کسی حصہ سے بھی بال کسی طرح بھی زائل نہیں کرنا چاہیے اور نہ ناخنوں کو کسی طرح چھیڑنا چاہیے،
امام ابن قدامہ لکھتے ہیں،
مقتضي النهي التحريم وهذا يرد القياس ويبطله نہی کا تقاضا حرمت ہے اور حدیث کے مقابلہ میں قیاس اور رائے باطل ہے۔
(المغنی،
ج 13،
ص 363)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5117   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.