الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
The Book on Legal Punishments (Al-Hudud)
20. باب مَا جَاءَ أَنْ لاَ تُقْطَعَ الأَيْدِي فِي الْغَزْوِ
20. باب: دوران جنگ چور کے ہاتھ نہ کاٹے جانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Hands No Being Cut In Battles
حدیث نمبر: 1450
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا ابن لهيعة , عن عياش بن عباس , عن شييم بن بيتان , عن جنادة بن ابي امية , عن بسر بن ارطاة , قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تقطع الايدي في الغزو " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب , وقد روى غير ابن لهيعة بهذا الإسناد نحو هذا , ويقال بسر بن ابي ارطاة ايضا , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , منهم الاوزاعي , لا يرون ان يقام الحد في الغزو بحضرة العدو , مخافة ان يلحق من يقام عليه الحد بالعدو , فإذا خرج الإمام من ارض الحرب , ورجع إلى دار الإسلام , اقام الحد على من اصابه , كذلك قال الاوزاعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ شُيَيْمِ بْنِ بَيْتَانَ , عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ , عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ , قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُقْطَعُ الْأَيْدِي فِي الْغَزْوِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ لَهِيعَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا , وَيُقَالُ بُسْرُ بْنُ أَبِي أَرْطَاةَ أَيْضًا , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , مِنْهُمْ الْأَوْزَاعِيُّ , لَا يَرَوْنَ أَنْ يُقَامَ الْحَدُّ فِي الْغَزْوِ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ , مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ مَنْ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ بِالْعَدُوِّ , فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ مِنْ أَرْضِ الْحَرْبِ , وَرَجَعَ إِلَى دَارِ الْإِسْلَامِ , أَقَامَ الْحَدَّ عَلَى مَنْ أَصَابَهُ , كَذَلِكَ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ.
بسر بن ارطاۃ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جنگ کے دوران (چوری کرنے والے کا) ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ابن لہیعہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہیں میں اوزاعی بھی ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: دشمن کی موجودگی میں جہاد کے دوران (چوری کرنے پر) حد قائم نہیں کی جائے گی، کیونکہ جس پر حد قائم کی جائے گی اندیشہ ہے کہ وہ دشمن سے مل جائے، البتہ امام جب دارالحرب سے نکل کر دارالاسلام واپس آ جائے تو چوری کرنے والے پر حد قائم کرے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 18 (4408)، سنن النسائی/قطع السارق 17 (4982)، (تحفة الأشراف: 2015)، و مسند احمد (4/181) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے جس کا ذکر مؤلف نے کیا ہے، ورنہ اس کے راوی ”ابن لھیعہ“ ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: مسند احمد میں عبادہ بن صامت کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أقيموا الحدود في الحضر والسفر» حضر اور سفر دونوں میں حدود قائم کرو، اس میں اور بسر بن ارطاۃ کی حدیث میں تعارض ہے، علامہ شوکانی کہتے ہیں: دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ بسر ارطاۃ کی حدیث خاص ہے جب کہ عبادہ کی حدیث عام ہے، کیونکہ ہر مسافر مجاہد نہیں ہوتا البتہ ہر مجاہد مسافر ہوتا ہے، نیز بسر کی حدیث کا تعلق چوری کی حد سے ہے، جب کہ عبادہ کی حدیث کا تعلق عام حد سے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3601)

   جامع الترمذي1450بسر بن أرطاةلا تقطع الأيدي في الغزو
   سنن أبي داود4408بسر بن أرطاةلا تقطع الأيدي في السفر ولولا ذلك لقطعته
   سنن النسائى الصغرى4982بسر بن أرطاةلا تقطع الأيدي في السفر
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1450 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1450  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مسند احمد میں عبادہ بن صامت کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَقِيمُوا الحُدُودَ فِي الحَضرِ وَالسَّفرِ حضر اور سفر دونوں میں حدود قائم کرو،
اس میں اور بسر بن ارطاۃ کی حدیث میں تعارض ہے،
علامہ شوکانی کہتے ہیں:
دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے،
کیونکہ بسر ارطاۃ کی حدیث خاص ہے جب کہ عبادہ کی حدیث عام ہے،
کیونکہ ہرمسافرمجاہد نہیں ہوتا البتہ ہر مجاہد مسافر ہوتا ہے،
نیز بسر کی حدیث کا تعلق چوری کی حد سے ہے،
جب کہ عبادہ کی حدیث کا تعلق عام حد سے ہے۔

نوٹ:
(متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے جس کا ذکر مؤلف نے کیا ہے،
ورنہ اس کے راوی ابن لھیعہ ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1450   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4982  
´سفر میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان۔`
بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: سفر میں (چور کے) ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4982]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت میں سفر سےمراد جنگ کا سفر ہے۔ جب دشمن کا علاقہ قریب ہو اور خطرہ ہو کہ ہاتھ کاٹنے سے مشتعل ہو کروہ کفار کے علاقے میں بھاگ جائے گا اور ان کے ساتھ مل کر مرتد ہو جائے گا۔ مطلق سفر مراد نہیں کیونکہ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ سفر وحضر میں حدود قائم کرو۔ (مسند أحمد:316/5، الصحیحة للألباني، حدیث:1972) نیز سفر میں حد نہ لگانے کی کوئی وجہ نہیں۔ شریعت جس طرح حضر کے لیے ہے، اسی طرح سفر کے لیے بھی ہے، لہٰذا خاص سفر مراد ہے۔
(2) اس حکم کا یہ مطلب نہیں  کہ حد بالکل ساقط کر دی جائے بلکہ جب سفر سے واپسی ہوگی تو حد لگائی جائےگی کیونکہ شریعت کی مقررہ حدود ساقط نہیں ہو سکتیں۔
(3) حدیث سےمعلوم ہوا کہ حدود کے نفاذ میں انتہائی دور اندیشی اور احتیاط لازم ہے۔ اگر حد کے نفاذ سے نقصان عظیم کا خطرہ ہوتو وقتی طور پر اسے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4982   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4408  
´کیا جنگ میں چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟`
جنادہ بن ابی امیہ کہتے ہیں کہ ہم بسر بن ارطاۃ کے ساتھ سمندری سفر پر تھے کہ ان کے پاس ایک چور لایا گیا جس کا نام مصدر تھا اس نے ایک اونٹ چرایا تھا تو آپ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سفر میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر آپ کا یہ فرمان نہ ہوتا تو میں ضرور اسے کاٹ ڈالتا۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4408]
فوائد ومسائل:
بسر بن ارطاۃ کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے اور علامہ شوکانی رحمۃاللہ کا کہنا ہے کہ دارالحرب میں حد کی تنفیذ ولی الامر کے فیصلے پرموقوف ہے۔
(نيل الأوطار، باب في حد القطع وغيره هل يستو في في دارالحرب أم لا؟)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4408   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.