ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا کیا
۱؎: امیر المؤمنین! کیا آپ کے پاس کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریر ہے جو قرآن میں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا! میں سوائے اس فہم و بصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نوازتا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا، میں نے پوچھا: صحیفہ میں کیا ہے؟ کہا: اس میں دیت، قید یوں کے آزاد کرنے کا ذکر اور آپ کا یہ فرمان ہے:
”مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کو قتل کیا جائے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1412
اردو حاشہ:
وضاخت:
1؎:
علی رضی اللہ عنہ سے ابو جحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جودوسروں کو معلوم نہیں،
کچھ اسی طرح کا سوال علی رضی اللہ عنہ سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیا تھا،
اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔
2؎:
رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم عام ہے ہرکافر کے لیے خواہ حربی ہو یا ذمی،
لہٰذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا،
ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا،
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے،
اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو یہ منسوخ ہوگی اور (لَايُقتَلُ مُسلم بِكَافِر) والی روایت اس کے لیے ناسخ ہوگی،
کیوں کہ آپﷺ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1412