(موقوف) حدثنا قتيبة، وابن ابي عمر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال:" كنا نعزل والقرآن ينزل". قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح، وقد روي عنه من غير وجه، وقد رخص قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم في العزل، وقال مالك بن انس: تستامر الحرة في العزل ولا تستامر الامة.(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْعَزْلِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّةُ فِي الْعَزْلِ وَلَا تُسْتَأْمَرُ الْأَمَةُ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اتر رہا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اور بھی کئی طرق سے ان سے مروی ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کی اجازت دی ہے۔ مالک بن انس کا قول ہے کہ آزاد عورت سے عزل کی اجازت لی جائے گی اور لونڈی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی ممانعت نازل کر دیتا، البتہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل درست نہیں ہے، جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 96 (5208، 5209)، صحیح مسلم/النکاح 22 (1440)، سنن ابن ماجہ/النکاح 30 (1927)، (تحفة الأشراف: 2468) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/النکاح 96 (5207)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1137
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی ممانعت نازل کردیتا، البتہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل درست نہیں ہے، جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1137