عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کے بارے میں پوچھا جسے آپ دن میں فرض سے پہلے پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا: کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر انہوں نے ہمیں بتایا، اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت سورج ڈھل جاتا دو رکعت پڑھتے، اور نصف النہار ہونے سے پہلے چار رکعت پڑھتے، اور اس کے آخر میں سلام پھیرتے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو إسحاق عنعن فى هذا اللفظ. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 327
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 876
876 ۔ اردو حاشیہ: ➊ سورج کچھ اونچا آنے سے مراد ممکن ہے صلاۃ اشراق ہو اور ممکن ہے صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ہو۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ چار رکعت کے آخر میں سلام کہتے تھے، نہ کہ دو رکعت کے بعد۔ اور یہ بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین (چاشت کی نماز) میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ اصل میں ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ جب یہ نفلی نماز کراہت کا وقت نکلتے ہی، جب کہ سورج نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا نکل آئے، پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہہ لیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد جو نوافل پڑھے جائیں انہیں حدیث میں صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاوابین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ [مرعاة المفاتیح: 3؍240، طبع قدیم، والمقول المقبول، ص: 288، وسلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، رقم: 1994] تاہم مغرب کے بعد چھ نوافل کو جو صلاۃ الاوابین قرار دیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں، اس لیے کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ واللہ أعلم۔ ➌ مذکورہ دونوں روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار سے قبل صلاۃ اشراق اور ضحیٰ وغیرہ کے علاوہ مزید چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 876