(مرفوع) اخبرنا محمد بن عمر بن علي بن مقدم، قال: حدثنا يوسف بن يعقوب، قال: اخبرني التيمي، عن ابي مجلز، عن قيس بن عباد، قال: بينا انا في المسجد في الصف المقدم فجبذني رجل من خلفي جبذة فنحاني وقام مقامي فوالله ما عقلت صلاتي فلما انصرف فإذا هو ابي بن كعب فقال:" يا فتى لا يسؤك الله إن هذا عهد من النبي صلى الله عليه وسلم إلينا ان نليه"، ثم استقبل القبلة فقال:" هلك اهل العقد" ورب الكعبة ثلاثا، ثم قال:" والله ما عليهم آسى ولكن آسى على من اضلوا" قلت: يا ابا يعقوب ما يعني باهل العقد قال: الامراء. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ، قال: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ، قال: أَخْبَرَنِي التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بنِ عُبَادٍ، قال: بَيْنَا أَنَا فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ فَجَبَذَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي جَبْذَةً فَنَحَّانِي وَقَامَ مَقَامِي فَوَاللَّهِ مَا عَقَلْتُ صَلَاتِي فَلَمَّا انْصَرَفَ فَإِذَا هُوَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فَقَالَ:" يَا فَتَى لَا يَسُؤْكَ اللَّهُ إِنَّ هَذَا عَهْدٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا أَنْ نَلِيَهُ"، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَقَالَ:" هَلَكَ أَهْلُ الْعُقَدِ" وَرَبِّ الْكَعْبَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ:" وَاللَّهِ مَا عَلَيْهِمْ آسَى وَلَكِنْ آسَى عَلَى مَنْ أَضَلُّوا" قُلْتُ: يَا أَبَا يَعْقُوبَ مَا يَعْنِي بِأَهْلِ الْعُقَدِ قَالَ: الْأُمَرَاءُ.
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں مسجد میں اگلی صف میں تھا کہ اسی دوران مجھے میرے پیچھے سے ایک شخص نے زور سے کھینچا، اور مجھے ہٹا کر میری جگہ خود کھڑا ہو گیا، تو قسم اللہ کی غصہ کے مارے مجھے اپنی نماز کا ہوش نہیں رہا، جب وہ (سلام پھیر کر) پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں تو انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا: اے نوجوان! اللہ تجھے رنج و مصیبت سے بچائے! حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا میثاق (عہد) ہے کہ ہم ان سے قریب رہیں، پھر وہ قبلہ رخ ہوئے، اور انہوں نے تین بار کہا: رب کعبہ کی قسم! تباہ ہو گئے اہل عقد، پھر انہوں نے کہا: لیکن ہمیں ان پر غم نہیں ہے، بلکہ غم ان پر ہے جو بھٹک گئے ہیں، میں نے پوچھا: اے ابو یعقوب! اہل عقد سے آپ کا کیا مطلب؟ تو انہوں نے کہا: امراء (حکام) مراد ہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 809
809 ۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا کہ اگر کوئی بچہ یا کم عقل انسان پہلی صف میں کھڑا ہو جائے تو اسے اچھے طریقے یعنی پیار محبت سے پیچھے ہٹا دیا جائے تاکہ اس کی جگہ کوئی سمجھ دار معمر آدمی کھڑا ہو سکے تاہم یہ معمول درست نہیں کہ بڑے لوگ جماعت سے پیچھے بیٹھ رہیں جب صف مکمل کر کے لوگ نماز شروع کرنے لگیں تو یہ نوجوان کو گھسیٹنا شروع کر دیں۔ اس سے دل شکنی کے علاوہ بدنظمی پھیلتی ہے۔ کبھی کبھار کوئی اہل علم و فضل بزرگ جس کا سب احترام کرتے ہوں پیچھے رہ جائے تو وہ کسی بچے کی جگہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے اس بزرگ کے احترام کے پیش نظر نہ اس بچے کی دل شکنی ہو گی نہ جھگڑا۔ ہر آدمی کا یہ مقام نہیں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سید القراء تھے جن کا احترام حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر اور با رعب خلیفہ بھی کرتے تھے پھر انہوں نے کیسے پیار سے سمجھایا کہ متعلقہ شخص کی ناراضی ختم ہو گئی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 809