الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل
The Book of the Qiblah
7. بَابُ : ذِكْرِ مَا يَقْطَعُ الصَّلاَةَ وَمَا لاَ يَقْطَعُ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّي سُتْرَةٌ
7. باب: نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟
Chapter: Mention of what interrupts the prayer and what does not if a praying person does not have a Sutra in front of him
حدیث نمبر: 753
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، عن سفيان، قال: حدثنا الزهري، قال: اخبرني عبيد الله، عن ابن عباس، قال:" جئت انا والفضل على اتان لنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بعرفة، ثم ذكر كلمة معناها، فمررنا على بعض الصف فنزلنا وتركناها ترتع، فلم يقل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قال: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ عَلَى أَتَانٍ لَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِعَرَفَةَ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، فَمَرَرْنَا عَلَى بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْنَا وَتَرَكْنَاهَا تَرْتَعُ، فَلَمْ يَقُلْ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا:) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 18 (76)، الصلاة 90 (493)، الأذان 161 (861)، جزاء الصید 25 (1857)، المغازي 77 (4412)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (504)، سنن ابی داود/الصلاة 113 (715)، سنن الترمذی/الصلاة 136 (337)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 38 (947)، (تحفة الأشراف: 5834)، موطا امام مالک/السفر 11 (38)، مسند احمد 1/219، 264، 265، 337، 342، سنن الدارمی/الصلاة 129 (1455) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کوئی سرزنش نہیں کی، کیونکہ امام مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے، اور وہ دونوں صف کے کچھ ہی حصہ سے گزرے تھے، امام کو عبور نہیں کیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري861عبد الله بن عباسأقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
   صحيح البخاري76عبد الله بن عباسيصلي بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف وأرسلت الأتان ترتع فدخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي
   صحيح البخاري4412عبد الله بن عباسأنه أقبل يسير على حمار ورسول الله قائم بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس فسار الحمار بين يدي بعض الصف ثم نزل عنه فصف مع الناس
   صحيح البخاري1857عبد الله بن عباسأقبلت وقد ناهزت الحلم أسير على أتان لي ورسول الله قائم يصلي بمنى حتى سرت بين يدي بعض الصف الأول ثم نزلت عنها فرتعت فصففت مع الناس وراء رسول الله
   صحيح مسلم1125عبد الله بن عباسأقبل يسير على حمار ورسول الله قائم يصلي بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس قال فسار الحمار بين يدي بعض الصف ثم نزل عنه فصف مع الناس
   صحيح مسلم1124عبد الله بن عباسيصلي بالناس بمنى فمررت بين يدي الصف فنزلت فأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
   سنن أبي داود715عبد الله بن عباسلم ينكر ذلك أحد
   سنن النسائى الصغرى753عبد الله بن عباسجئت أنا والفضل على أتان لنا ورسول الله يصلي بالناس بعرفة ثم ذكر كلمة معناها فمررنا على بعض الصف فنزلنا وتركناها ترتع فلم يقل لنا رسول الله شيئا
   سنن ابن ماجه947عبد الله بن عباسيصلي بعرفة فجئت أنا والفضل على أتان فمررنا على بعض الصف فنزلنا عنها وتركناها ثم دخلنا في الصف
   مسندالحميدي481عبد الله بن عباسجئت أنا والفضل على أتان ورسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فمررنا على بعض الصف فنزلنا فتركناها ترتع، ودخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة فلم يقل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا
سنن نسائی کی حدیث نمبر 753 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 753  
753 ۔ اردو حاشیہ: امام بخاری رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ تھا جیسا کہ دیگر مفصل روایات سے واضح ہوتا ہے، لہٰذا امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 493]
اس لیے یہ روایت اس باب کے تحت نہیں آنی چاہیے تھی۔ بعض لوگوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ گدھے کا گزرنا نماز نہیں توڑتا، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ توڑنے نہ توڑنے کی بحث اس وقت ہے جب آگے سترہ نہ ہو اور وہ سترے اور نمازیوں کے درمیان سے گزری ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 753   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث947  
´کس چیز کے نمازی کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقام عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں اور فضل ایک گدھی پر سوار ہو کر صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرے، پھر ہم سواری سے اترے اور گدھی کو چھوڑ دیا، پھر ہم صف میں شامل ہو گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 947]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہواکہ نمازی کے آگے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی جب کہ حدیث 950 تا 952 میں آرہا ہے۔
کہ گدھے کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
لیکن نماز نہ ٹوٹنے پر اس حدیث سےاستدلال قوی نہیں کیونکہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے امام نبی اکرمﷺ کے سامنے سے نہیں گزرے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 947   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:481  
481- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عرفہ میں تھے، ہم ایک صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرے، ہم اس سے اترے اور ہم نے اسے چرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز میں شامل ہوگئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ بھی نہیں کہا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:481]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گدھا نا پاک نہیں ہے، صرف اس کا گوشت کھانا حرام ہے، اس پر سوار ہونا ٹھیک ہے، تمام مقتدیوں کا سترہ امام کا سترہ ہی ہوتا ہے، ان کو سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس حدیث سے تقریری حدیث کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 481   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1857  
1857. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے حتی کہ میں پہلی صف کے ایک حصے کے آگے سے گزر گیا۔ پھر میں اس سے اترااور وہ چرنے لگی۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے لوگوں کے ہمراہ صف میں شریک ہو گیا۔ (راوی حدیث یونس) نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے: رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1857]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن عباس ؓ ان دنوں نابالغ تھے۔
باوجود اس کے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ حج کیا، امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب اسی سے ثابت فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1857   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 861  
861. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں اس وقت قریب البلوغ تھا اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ (کسی چیز کی طرف منہ کر کے) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں صف کے ایک حصے سے گزر کر خود صف میں شامل ہو گیا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس ساری کاروائی کے متعلق مجھ پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:861]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔
حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔
اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 861   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:76  
76. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس وقت میں قریب البلوغ تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں کسی دیوار کو سامنے کیے بغیر نماز پڑھا رہے تھے۔ میں ایک صف کے آگے سے گزرا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:76]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بچہ سمجھ داراور ہوشیار ہو جائے تو حامل حدیث ہو سکتا ہے لیکن ادائے حدیث کے لیے اس کا بالغ ہونا شرط ہے۔
امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے راوی کی عمر کم ازکم پندرہ سال ہونی چاہیےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو احد کے دن جنگ میں شریک نہیں ہونے دیا تھا اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جنگ بدر کے موقع پر واپس کردیا تھا، کیونکہ ان دونوں کی عمریں پندرہ سال سے کم تھیں لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے سمجھدار اور ہوشیار ہونا تو ضروری ہے لیکن عمر کی قید نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کو جنگ میں شریک نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ میں قوت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے آپ نے چھوٹی عمر والوں کو واپس کردیا تھا البتہ تحمل حدیث کے لیے طاقت درکار نہیں ہوتی بلکہ اس کا مدار صرف ہوشیاری اورسمجھداری پر ہے۔
سمجھدار بچہ اگر بچپن کی کوئی بات بالغ ہونے کے بعد نقل کرتا ہے تو وہ معتبر ہوگی چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے محدثین نے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(فتح الباري: 225/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 76   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4412  
4412. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ وہ گدھی پر سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں کھڑے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ گدھی صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزری۔ پھر وہ اس سے اتر کر لوگوں کے ساتھ صف میں شامل ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4412]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ دوران جماعت میں رسول اللہ ﷺ کے آگے سے نہیں گزرے تھے بلکہ کچھ مقتدیوں کے آگے سے گزرے تھے۔
چونکہ امام کا سترہ لوگوں کاسترہ ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کی کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔
جب جماعت ہورہی ہوتو امام کے آگے سے اور جب نمازی اکیلا پڑھ رہا ہوتو اس کے آگے سے گزرنا سخت منع ہے۔
امام اور انفرادی نماز پڑھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آگے سترہ ضرور رکھیں۔
چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4412   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.