(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عيسى بن يونس، قال: حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، قال: دخلت انا وعلقمة على عبد الله بن مسعود، فقال لنا: اصلى هؤلاء؟ قلنا: لا، قال:" قوموا فصلوا، فذهبنا لنقوم خلفه، فجعل احدنا عن يمينه والآخر عن شماله فصلى بغير اذان ولا إقامة، فجعل إذا ركع شبك بين اصابعه وجعلها بين ركبتيه"، وقال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قال: دَخَلْتُ أَنَا وَعَلْقَمَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ لَنَا: أَصَلَّى هَؤُلَاءِ؟ قُلْنَا: لَا، قال:" قُومُوا فَصَلُّوا، فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ خَلْفَهُ، فَجَعَلَ أَحَدَنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِهِ فَصَلَّى بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، فَجَعَلَ إِذَا رَكَعَ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ وَجَعَلَهَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ"، وَقَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ.
اسود کہتے ہیں کہ میں اور علقمہ دونوں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، تو آپ نے ہم سے پوچھا: کیا ان لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، تو آپ نے کہا: اٹھو نماز پڑھو، ہم چلے تاکہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوں، تو آپ نے ہم میں سے ایک کو اپنی داہنی طرف، اور دوسرے کو اپنی بائیں طرف کر لیا، پھر بغیر کسی اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، جب آپ رکوع کرتے تو اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر لیتے، اور دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں کے بیچ کر لیتے ۱؎، اور (نماز کے بعد) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
وضاحت: ۱؎: ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دونوں رانوں کے بیچ میں رکھنے کو تطبیق کہتے ہیں، اور یہ بالاتفاق منسوخ ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس کی منسوخی کا علم نہیں ہو سکا تھا، یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ جب یہ منسوخ ہے تو مصنف کا اس کے جواز پر استدلال کرنا کیسے درست ہے؟ کیونکہ رکوع کی حالت میں ایسا کرنا منسوخ ہے، واضح رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ مسجد میں ایسا کرنا بھی جائز نہیں، نیز حدیث میں ممانعت ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کی نہیں ہے، بلکہ رکوع کی حالت میں اس کیفیت میں ہاتھ لٹکانے کی ممانعت ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 720
720 ۔ اردو حاشیہ: ➊ امام صاحب کا تشبیک پر استدلال واضح ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تشبیک نماز کے اندر کی۔ اور نماز عموماً مسجد میں پڑھی جاتی ہے، لہٰذا مسجد میں تشبیک جائز ہے، البتہ اس پر اعتراض ہے کہ رکوع میں تشبیک کر کے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھنا جسے علمی اصطلاح میں تطبیق کہتے ہیں، بالاتفاق منسوخ ہے، لہٰذا منسوخ سے استدلال کیسے ہو سکتا ہے جس طرح کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ رکوع یا نماز کے اندر ہے، آگے پیچھے مسجد میں منع نہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس نسخ کا علم نہ ہوا جبکہ دیگر صحابہ، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے صراحتاً اس کا نسخ ثابت ہے۔ دیکھیے، [صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 525] یہاں ایک اور قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو یا گھر سے نماز کی نیت سے نکلا ہو تو کیا تشبیک کر سکتا ہے؟ احادیث کو دیکھا جائے تو کچھ احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور کچھ میں اس کا اثبات اور جواز ہے، یعنی بعض مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشبیک کی ہے۔ اس کی تطبیق یہ ہے، جس کی وضاحت ابن منیر نے فرمائی ہے کہ بلاوجہ یا بلاضرورت ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا ممنوع ہے کیونکہ یہ عمل عبث اور بے فائدہ ہے۔ اگر تعلیم و تفہیم یا تمثل کی خاطر ہو تو درست ہے۔ اور جہاں کہیں احادیث میں اس کا اثبات ہے، وہاں یہی مقصود ہے۔ بعض کے بقول اگر نماز میں ہو یا نماز کا قصد ہو تو منع ہے۔ ممانعت کی احادیث کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اگر نماز کا قصد نہ ہو بلکہ ویسے ہی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس طرح تشبیک کرلینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حرمت کی ایک خاص حالت یا خاص وقت ہے، لہٰذا اوقات نماز کے علاوہ جب بھی چاہے، جائز ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 732/1، حدیث: 481] تشبیک کی حرمت پر دلالت کرنے والی بعض روایات کو کچھ علماء نے کمزور قرار دیا ہے لیکن ان کی حجیت و صحت ہی راحج ہے۔ دیکھیے: [صحیح سنن أبي داود (فصل) للألباني: 93/3] ➋ دو مقتدیوں کاامام کے دائیں بائیں کھڑا ہونا بھی منسوخ ہے۔ اس کا نسخ بھی متفق علیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے جس میں آپ نے انس اور ان کے بھائی کو اپنے پیچھے اور ان کی والدہ یا دادی کو ان کے پیچھے کھڑا کیا تھا۔ [صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 380، و صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 658] ➌ مسجد میں اذان اور جماعت ہو چکی ہو تو پھر مسجد کے اندر یا قریبی محلے میں بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اصل اذان و اقامت کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان اصحاب وغیرہ کا موقف یہی ہے کہ جب اذان اور اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ہو چکی ہو تو اس کے بعد آنے والے لوگ اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھیں، یعنی انہیں پہلے والے لوگوں کی اذان اور اقامت ہی کافی ہے۔ اب وہ جماعت کرائیں تو بغیر اقامت کے کرائیں جبکہ جمہور علمائے سلف اور خلف کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے والے لوگوں کی اقامت کافی نہیں ہو گی بلکہ ان کے حق میں اقامت کہنا مسنون ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۂ العقبیٰ، شرح سنن النسائي: 69/9] امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اثر معلقاً ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں: «جاء أنس إلی مسجد قد صلی فیه فأذن و أقام و صلی جماعة»[صحیح البخاري، الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعة، رقم الباب: 30] ”حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں تشریف لائے جس میں نماز پڑھی جا چکی تھی تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔“ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں یہ اثر موصولاً منقول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند صحیح قرار دی ہے۔ دیکھیے: [مختصر صحیح البخاري، بتحقیق الألباني: 209/1]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 720