(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ملازم، قال: حدثني عبد الله بن بدر، عن قيس بن طلق، عن ابيه طلق بن علي، قال: خرجنا وفدا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فبايعناه وصلينا معه واخبرناه ان بارضنا بيعة لنا فاستوهبناه من فضل طهوره، فدعا بماء، فتوضا وتمضمض ثم صبه في إداوة، وامرنا، فقال:" اخرجوا، فإذا اتيتم ارضكم فاكسروا بيعتكم وانضحوا مكانها بهذا الماء واتخذوها مسجدا". قلنا: إن البلد بعيد والحر شديد والماء ينشف، فقال:" مدوه من الماء، فإنه لا يزيده إلا طيبا"، فخرجنا حتى قدمنا بلدنا فكسرنا بيعتنا ثم نضحنا مكانها واتخذناها مسجدا فنادينا فيه بالاذان، قال: والراهب رجل من طيئ، فلما سمع الاذان، قال: دعوة حق، ثم استقبل تلعة من تلاعنا فلم نره بعد. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ مُلَازِمٍ، قال: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، قال: خَرَجْنَا وَفْدًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْنَاهُ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّ بِأَرْضِنَا بِيعَةً لَنَا فَاسْتَوْهَبْنَاهُ مِنْ فَضْلِ طَهُورِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّهُ فِي إِدَاوَةٍ، وَأَمَرَنَا، فَقَالَ:" اخْرُجُوا، فَإِذَا أَتَيْتُمْ أَرْضَكُمْ فَاكْسِرُوا بِيعَتَكُمْ وَانْضَحُوا مَكَانَهَا بِهَذَا الْمَاءِ وَاتَّخِذُوهَا مَسْجِدًا". قُلْنَا: إِنَّ الْبَلَدَ بَعِيدٌ وَالْحَرَّ شَدِيدٌ وَالْمَاءَ يَنْشُفُ، فَقَالَ:" مُدُّوهُ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَزِيدُهُ إِلَّا طِيبًا"، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا بَلَدَنَا فَكَسَرْنَا بِيعَتَنَا ثُمَّ نَضَحْنَا مَكَانَهَا وَاتَّخَذْنَاهَا مَسْجِدًا فَنَادَيْنَا فِيهِ بِالْأَذَانِ، قَالَ: وَالرَّاهِبُ رَجُلٌ مِنْ طَيِّئٍ، فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ، قَالَ: دَعْوَةُ حَقٍّ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ تَلْعَةً مِنْ تِلَاعِنَا فَلَمْ نَرَهُ بَعْدُ.
طلق بن علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وفد کی شکل میں نکلے، ہم نے آ کر آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور آپ کو بتایا کہ ہماری سر زمین میں ہمارا ایک گرجا گھر ہے، ہم نے آپ سے آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کی درخواست کی، تو آپ نے پانی منگوایا وضو کیا، اور کلی کی پھر اسے ایک برتن میں انڈیل دیا، اور ہمیں (جانے) کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جاؤ اور جب تم لوگ اپنے علاقے میں پہنچنا تو گرجا (کلیسا) کو توڑ ڈالنا، اور اس جگہ اس پانی کو چھڑک دینا اور اسے مسجد بنا لینا“، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارا ملک دور ہے، اور گرمی سخت ہے، پانی سوکھ جاتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور پانی ملا لیا کرنا کیونکہ تم جس قدر ملاؤ گے اس کی خوشبو بڑھتی جائے گی“ ؛ چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ اپنے ملک میں آ گئے، تو ہم نے گرجا کو توڑ ڈالا، پھر ہم نے اس جگہ پر یہ پانی چھڑکا اور اسے مسجد بنا لیا، پھر ہم نے اس میں اذان دی، اس گرجا کا راہب قبیلہ طے کا ایک آدمی تھا، جب اس نے اذان سنی تو کہا: یہ حق کی پکار ہے، پھر اس نے ہمارے ٹیلوں میں ایک ٹیلے کی طرف چلا گیا، اس کے بعد ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 702
702 ۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ وفد ہجرت کے پہلے سال ہی آیا تھا۔ اس وقت مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بھی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا اور گارا تیار کیا تھا۔ ➋ یہ گرجا ان لوگوں کا اپنا ہی تھا۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے اپنے گرجے کو مسجد میں بدل لیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ گرجا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا، البتہ ظاہری شکل و صورت مسجد جیسی بنانا ضروری ہے، نیز اگر اس میں بت یا مجسمے ہوں تو ان کا نکالنا ضروری ہے، تصویریں ہیں تو انہیں مٹانا ضروری ہے، البتہ اگر غیرمسلم مسلمان نہ ہوں تو ان کی عبادت گاہ کو زبردستی مسجد میں تبدیل نہیں کیا جا سکتاکہ یہ آزادیٔ مذہب کے خلاف ہے۔ ➌ ”وضو کا پانی“ سے مراد وہ پانی بھی ہو سکتا ہے جو وضو میں استعمال ہوتا ہے۔ اس جگہ یہ معنی مناسب ہیں کیونکہ یہ پانی تبرک کے لیے تھا، لیکن حدیث مذکور میں «فَضْلِ طَهُورِهِ» کا لفظ ہے، اس لیے ترجمہ میں اس سے مراد وہ پانی لیا گیا ہے جس سے وضو کیا گیا اور کچھ برتن میں بچ گیا۔ اس میں چونکہ بار بار آپ کا دست مبارک داخل ہوتا رہا ہے، لہٰذا وہ بھی متبرک تھا۔ ➍ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ چیزوں سے تبرک تو متفق علیہ مسئلہ ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ کے لعاب مبارک، پسینے، خون، پیاری زلفوں، مقدس ناخنوں، لباس شریف، نعلین مبارک، وضو کے بابرکت پانی اور آپ کے جسم اور اس سے لگنے والی ہرچیز سے برکت حاصل کی، مگر کیا یہ سلوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے؟ صحابہ و تابعین نے تو خلفائے راشدینِ تک کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ اس کے رواج تبع تابعین کے بعد اس وقت پڑا جب تصوف کا رواج ہوا، اس لیے اب ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی کو قطعاً مقدس اور مبارک نہیں کہا: جا سکتا۔ ➎ ”اس سے پاکیزگی ہی میں اضافہ ہو گا۔“ یعنی مزید پانی جو ملایا جائے گا، اس کے ملانے سے پہلے پانی کے تبرک میں کمی نہ آئے گی کیونکہ دوسرا پانی بھی تو پاک ہی ہے۔ پہلے تھوڑا پانی متبرک تھا، مزید ملانے سے زیادہ پانی متبرک ہو جائے گا۔ تبرک تو اس میں موجود ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ متبرک پانی، مثلاً: زمزم دور تک لے جایا جا سکتا ہے اور اس میں مزید پانی بھی ملایا جا سکتا ہے۔ ➏ معلوم ہوتا ہے کہ وہ راہب دعوت سنتے ہی مسلمان ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے غائب کر دیا۔ کوئی مصلحت ہو گی یا کہیں دور دراز نکل گیا ہو گا کیونکہ گرجا تو منہدم کر دیا گیا تھا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 702