(مرفوع) اخبرنا عثمان بن عبد الله، قال: حدثنا عبيد الله بن معاذ، قال: انبانا ابي، قال: حدثنا عمران بن حدير، قال: سالت لاحقا عن الركعتين قبل غروب الشمس، فقال: كان عبد الله بن الزبير يصليهما، فارسل إليه معاوية: ما هاتان الركعتان عند غروب الشمس؟ فاضطر الحديث إلى ام سلمة، فقالت ام سلمة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يصلي ركعتين قبل العصر، فشغل عنهما فركعهما حين غابت الشمس، فلم اره يصليهما قبل ولا بعد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، قال: أَنْبَأَنَا أَبِي، قال: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ، قال: سَأَلْتُ لَاحِقًا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَقَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يُصَلِّيهِمَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ: مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ؟ فَاضْطَرَّ الْحَدِيثَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ، فَشُغِلَ عَنْهُمَا فَرَكَعَهُمَا حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، فَلَمْ أَرَهُ يُصَلِّيهِمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ".
عمران بن حدیر کہتے ہیں: میں نے لاحق (لاحق بن حمید ابومجلز) سے سورج ڈوبنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پچھوا بھیجا کہ سورج ڈوبنے کے وقت کی یہ دونوں رکعتیں کیسی ہیں؟ تو انہوں نے بات ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا دی، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے تو (ایک مرتبہ) آپ انہیں نہیں پڑھ سکے، تو انہیں سورج ڈوبنے کے وقت ۱؎ پڑھی، پھر میں نے آپ کو انہیں نہ تو پہلے پڑھتے دیکھا اور نہ بعد میں۔
وضاحت: ۱؎: ایسے وقت میں پڑھی جب سورج کے ڈوبنے کا وقت قریب آگ یا تھا، یہ مطلب نہیں کہ سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی کیونکہ اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 582
582 ۔ اردو حاشیہ: ➊ «فَاضْطَرَّ الْحَدِيثَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ»”بات ام سلمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی۔“ یہ معنی لفظ ”الحدیث“ کو مرفوع پڑھنے کی صورت میں ہیں۔ جب اسے منصوب پڑھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کی یا انہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا سہارا لینا پڑا یا ان سے اس بارے میں بات کرنی پڑی وغیرہ۔ ➋اس روایت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رکعتیں وہ نہیں ہیں جو آپ عصر کے بعد بالدوام ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حدیث کے ان آخری الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے: ”میں نے اس دن کے سوا کبھی آپ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا، اس سے پہلے، نہ بعد۔“ بلکہ یہ دو رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور دن غروب شمس سے قبل ادا فرمائی ہوں گی جو عصر کی نماز کی، عصر سے قبل کی دو رکعتیں ہو سکتی ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نفس وہی دو رکعتیں ہوں جو آپ عصر کے بعد باقاعدہ پڑھا کرتے تھے اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بعد میں ان کی ادائیگی کی نفی کرنا ان کے علم کی حد تک ہے، اس سے نفس مسئلے کی نفی نہیں ہوتی۔ لیکن زیادہ صحیح پہلی بات ہی معلوم ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: [شرح سنن النسائي للإتیوبي: 7؍212] کیونکہ اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں سورج کے روشن اور چمک دار رہنے تک تمام کی اجازت ہے، لہٰذا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا بعد میں ان دو رکعتوں کو باقاعدہ اس وقت میں ادا کرنا ان کا اپنا اجتہاد ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عذر کی بنا پر ادا کی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 582