الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
9. بَابُ : الْحُكْمِ بِالتَّشْبِيهِ وَالتَّمْثِيلِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ
9. باب: تشبیہ اور مثال کے ذریعہ فیصلہ کرنا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ولید بن مسلم کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Passing Judgment on the Basis of a Comparison or Similarities, and Mentioning the Differences Reported From Al-Walid Bin Muslim In The Hadith Of Ibn 'Abbas
حدیث نمبر: 5391
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هاشم، عن الوليد، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، عن الفضل بن عباس، انه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة النحر، فاتته امراة من خثعم , فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يركب إلا معترضا افاحج عنه؟ قال:" نعم , حجي عنه، فإنه لو كان عليه دين قضيتيه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ الْوَلِيدِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ النَّحْرِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَرْكَبَ إِلَّا مُعْتَرِضًا أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ , حُجِّي عَنْهُ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَضَيْتِيهِ".
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 23 (1853)، صحیح مسلم/الحج 71 (1335)، سنن الترمذی/الحج 85 (928)، سنن ابن ماجہ/الحج 10 (2909)، (تحفة الأشراف: 11048)، مسند احمد (1/212، 313)، سنن الدارمی/المناسک 23 (1873، 1874) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: گویا اس مثال کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہر عدالت میں «اشباہ و نظائر» کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح مسلم3252فضل بن العباسحجي عنه
   سنن ابن ماجه2909فضل بن العباسأدركت أبي شيخا كبيرا لا يستطيع أن يركب أفأحج عنه
   سنن النسائى الصغرى2644فضل بن العباسأرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيه قال نعم حج عن أمك
   سنن النسائى الصغرى5391فضل بن العباسحجي عنه لو كان عليه دين قضيتيه
   سنن النسائى الصغرى5397فضل بن العباسحج عن أمك
   سنن النسائى الصغرى5398فضل بن العباسحج عن أبيك
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5391 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5391  
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا شخص اس سے پہلے اپنا حج کر چکا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا تھا کہ پہلے اپنا حج کر، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔
(2) یاد رہے جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اسے کوئی شرعی عذر آڑے آ رہا ہو جس کی وجہ سے وہ خود حج نہ کرسکتا ہو، مثلاً: وہ دائمی مریض ہو یا انتہائی بوڑھا ہو یا سواری پر بیٹھنے کے قابل نہ ہو، وغیرہ تو ایسے زندہ شخص کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
(3) یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر سواری کا جانور برداشت کر سکتا ہو تو اس پر بیک وقت ایک سے زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں، نیز یہ رسول اللہ ﷺ کی عظیم تواضع اور حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے عظیم المرتبت ہونے کی صریح دلیل بھی ہے کہ آپ نے اپنے سے کہیں کم مرتبہ شخص کو نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچے ایک ہی سواری پر سوارکر لیا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم شخص کے لیے عورت کی آواز سننا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ عورت کی آواز کو بھی عورت یعنی چھپانے کے قابل قراردیتے ہیں، اس حدیث مبارکہ سے ان کے مؤقف کا رد ہوتا ہے۔
(5) عالم اور استاد اگر مناسب سمجھے تو سائل اور شاگرد کو مثال بیان کرکے مسئلہ سمجھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔
(6) یہ حدیث مبارکہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھنا، ان کے ذمے قرض ہو تو ادا کرنا، ان کے نان و نفقہ اور اخراجات وغیرہ کا دھیان کرنا، نیز ان کی دیگر دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔
(7) یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ یوم نحر سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں واپس آتے ہیں اور رمی کرتے ہیں۔
(8) اگر اس کے ذمے قرض ہوتا یہ ایک مثال ہے جو آپؐ نے اس کو مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان فرمائی ورنہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے حج کا مسئلہ قرض کے مسئلہ سے معلوم فرمایا ہو بلکہ یہ دونوں احکام شرع میں معلوم تھے۔ اسی لیے امام بخاریؒ نے اس حدیث کا عنوان یوں باندھا ہے: جو شخص ایک معلوم حکم سمجھانے کے لیے ایک زیادہ واضح حکم بطور مثال بیان کرے۔۔۔۔الخ ورنہ بہت سے مسائل میں یہ قیاس نہیں چلتا، مثلاً: کسی شخص کے ذمے نماز یا روزہ ہو اوروہ خود ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔
(9) یاد رکھنا چاہیے کہ قیاس وہاں چلتا ہے جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہ ہو، اس لیے قرآن و حدیث کے حکم کے مقابلے میں قیاس جائز نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5391   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5398  
´اس حدیث میں یحییٰ بن ابی اسحاق کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں؟۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5398]
اردو حاشہ:
اس باب کی پہلی چار روایات میں سائل عورت ہے اورآخری چار روایات میں سائل مرد ہے جب کہ واقعہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح عام روایات میں سوال والد کے بارے میں کیا گیا ہے جبکہ روایت 5396 میں سوال والدہ کے بارے میں کیا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ سائل آدمی تھا۔ اس کے ساتھ اس کی نوجوان بیٹی بھی تھی۔ پہلے بیٹی نے سوال کیا، پھراس شخص نے بھی کیا۔ سوال اس آدمی کے والد اور والدہ کے بارے میں تھا۔ لڑکی چونکہ اپنے باپ کی طرف سے سوال پوچھ رہی تھی، لہٰذا اس نے الفاظ اپنے والد والے ہی استعمال کیے۔ جبکہ جس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، وہ اس لڑکی کا دادا تھا۔ ویسے بھی دادا کو باپ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ استعمال میں عام ہے۔ اس آدمی کے والدین دونوں بوڑھے تھے، لہٰذا سوال دونوں کے بارے میں کیا گیا۔ مسند ابو یعلی(حدیث: 6731، بہ تحقیق حسین سلیم اسد) کی ایک روایت سے مذکورہ تطبیق کا اشارہ ملتا ہے کہ سائل مرد اور اس کی نوجوان بیٹی دونوں تھے۔ واللہ أعلم۔ بعض علماء محققین ترجیح کی طرف مائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو روایات امام زہری کے واسطے سے مروی ہیں ان سب میں عورت ہی کا ذکر ہے۔ اور یہ بخاری و مسلم کی روایات ہیں، اس لیے انہیں ترجیح حاصل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سائلہ عورت ہی تھی، مرد نہ تھا، مرد کے ذکر والی روایت مرجوح ہیں۔ مزید دیکھیے: (تعلیقات سلفیة، طبع جدید: 458/5)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5398   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3252  
حضرت فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، خثعم قبیلہ کی ایک عورت نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرا باپ بہت بوڑھا ہے، اس پر اللہ کا فریضہ، حج، فرض ہو چکا ہے اور وہ اپنے اونٹ کی پشت پر بیٹھ نہیں سکتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کی طرف سے حج کر۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3252]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی انسان پر حج فرض ہو چکا ہو،
لیکن وہ کسی عذر کی بنا پر خود حج نہ کر سکتا ہو تو اس کی طرف سے دوسرا مرد یا عورت حج کر سکتی ہے،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
کا یہی موقف ہے،
لیکن مالکیہ کے نزدیک کسی کی طرف سے حج نہیں کیا جا سکتا جمہور کے نزدیک مالدار شخص اگر مجبوری کی وجہ سے خود حج نہ کرسکتا ہوتو اس پر لازم ہے کہ وہ کسی سے اپنی جگہ حج کروائے،
اس طرح میت کی طرف سے بھی حج کیا جا سکتا ہے،
بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک میت کے ترکہ سے حج کرنا اگر اس نے مال چھوڑا ہو اور زندگی میں اس پر حج فرض ہو چکا ہو تو اس کی طرف سے حج کرنا لازم ہے،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
کا نظریہ بھی یہی ہےاور جمہور کے نزدیک حج بدل وہ انسان کر سکتا ہے جس نے اپنا حج کر لیا ہو اور احناف کے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے صرف بہتر ہے کہ اس نے پہلے اپنا حج کیا ہو پھر حج بدل کرے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3252   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.