الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
60. بَابُ : تَسْكِينِ الشَّعْرِ
60. باب: بالوں کو سنوارنے اور درست رکھنے کا بیان۔
Chapter: Calming Down One's Hair
حدیث نمبر: 5238
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن خشرم، قال: انبانا عيسى، عن الاوزاعي، عن حسان بن عطية، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، انه قال: اتانا النبي صلى الله عليه وسلم , فراى رجلا ثائر الراس , فقال:" اما يجد هذا ما يسكن به شعره".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَأَى رَجُلًا ثَائِرَ الرَّأْسِ , فَقَالَ:" أَمَا يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ شَعْرَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آپ نے ایک شخص کو دیکھا، اس کے سر کے بال الجھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: کیا اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس سے اپنے بال ٹھیک رکھ سکے؟۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 17 (4062)، (تحفة الأشراف: 3012)، مسند احمد (3/357) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن النسائى الصغرى5238جابر بن عبد اللهأما يجد هذا ما يسكن به شعره
   المعجم الصغير للطبراني732جابر بن عبد الله أبصر رجلا ثائر الرأس ، فقال : لم يشوه أحدكم نفسه ؟ ، وأشار بيده أى يأخذ منه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5238 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5238  
اردو حاشہ:
1۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی شخص لمبے بال اور زلفیں رکھے تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں سنوار کر رکھے، تیل لگائے اور کنگھی کرے، نیز انہیں پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: [مَن كان له شَعَرٌ، فَلْيُكرِمْهُ] جس شخص نے بال رکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں بنا سنوار کر رکھے۔ (سنن أبي داؤد، الترجل، باب فی اصلاح الشعر، حدیث: 4163، وقال الألباني حسن صحیح) بالوں کی عزت یعنی انہیں سنوارنے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ایک شیشہ اور کنگھی ہمیشہ جیب کی زینت بنی رہے۔ اس حوالے سے کچھ روایات بھی منقول ہیں لیکن وہ درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ ہاں بوقت ضرورت ان کا خیال کیا جائے، اور اس کی حد ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنا ہے بلا ناغہ ٹیپ ٹاپ کی ممانعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [أن رسولُ اللهِ ﷺ نهى عن الترجُّلِ إلّا غِبًّا] (سنن أبي داؤد، الترجل، باب النهى عن كثير من الإرفاء، حدیث: 4159) رسول اکرم ﷺ نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔
(2) میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا زہد ہے نہ سادگی بلکہ یہ حماقت اور جہالت ہے، جو کسی بھی طرح ایک باوقار اور قابل احترام مسلمان کے لائق نہیں۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی پاکیزگی اور صاف ستھرائی کا تقاضا کرتا ہے۔ مزید برآں رسول کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے: [إنَّ اللهَ جميلٌ يُحِبُّ الجمالَ] بلاشبہ اللہ تعالیٰ حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔ (مسند أحمد: 4/ 133،134)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5238   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.