(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال: سمعت ابا ايوب الازدي يحدث، عن عبد الله بن عمرو، قال شعبة: كان قتادة يرفعه احيانا واحيانا لا يرفعه، قال:" وقت صلاة الظهر ما لم تحضر العصر، ووقت صلاة العصر ما لم تصفر الشمس، ووقت المغرب ما لم يسقط ثور الشفق، ووقت العشاء ما لم ينتصف الليل، ووقت الصبح ما لم تطلع الشمس". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قال: سَمِعْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَزْدِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قال شُعْبَةُ: كَانَ قَتَادَةُ يَرْفَعُهُ أَحْيَانًا وَأَحْيَانًا لَا يَرْفَعُهُ، قال:" وَقْتُ صَلَاةِ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ ثَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَاءِ مَا لَمْ يَنْتَصِفْ اللَّيْلُ، وَوَقْتُ الصُّبْحِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے (شعبہ کہتے ہیں: قتادہ اسے کبھی مرفوع کرتے تھے اور کبھی مرفوع نہیں کرتے تھے ۱؎) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک عصر کا وقت نہ آ جائے، اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج زرد نہ ہو جائے، اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق کی سرخی چلی نہ جائے، اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج نکل نہ جائے۔
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں دیگر دو سندوں سے مرفوعاً ہی ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 523
523 ۔ اردو حاشیہ: مغرب کا آخری وقت سورج کی سرخی غائب ہونے تک ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ واحد فقیہ ہیں جنہوں نے شفق کے معنی سرخی کی بجائے سفیدی کیے ہیں جو سرخی کے بعد ہوتی ہے مگر یہ لغت اور عرف کے خلاف ہے۔ ان کے شاگرد بھی ان سے متفق نہیں ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ موقوفا مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: «الشَّفَق الحمرۃ»”شفق سے مراد سرخی ہے۔“(سنن الدار قطني (محقق): 1/588] دراصل یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے مغرب کے وقت کو فجر کے وقت پر قیاس کیا ہے۔ فجر کا وقت بالاتفاق سفیدی سے شروع ہوتا ہے۔ قیاس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں نمازیں رات کے اول اور آخر کنارے کی نمازیں ہیں لہٰذا ایک جیسی ہونی چاہیں مگر صریح نص کی موجودگی میں قیاس نا قابل تسلیم ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 523