(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا النضر بن شميل، قال: انبانا كهمس بن الحسن، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، ان عبد الله بن عمر، قال: حدثني عمر بن الخطاب قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه اثر السفر , ولا يعرفه منا احد حتى جلس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، ثم قال: يا محمد اخبرني عن الإسلام؟ قال:" ان تشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا"، قال: صدقت , فعجبنا إليه يساله ويصدقه، ثم قال: اخبرني عن الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر كله خيره وشره"، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان؟ قال:" ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال فاخبرني عن الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم بها من السائل"، قال، فاخبرني عن اماراتها؟ قال:" ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان"، قال: عمر فلبثت ثلاثا، ثم قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمر , هل تدري من السائل؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" فإنه جبريل عليه السلام اتاكم ليعلمكم امر دينكم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ , وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ:" أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"، قَالَ: صَدَقْتَ , فَعَجِبْنَا إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاه، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ، فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا؟ قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ"، قَالَ: عُمَرُ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُمَرُ , هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَاكُمْ لِيُعَلِّمَكُمْ أَمْرَ دِينِكُمْ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا، جس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے، اس پر سفر کے آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی اسے جانتا بھی نہیں تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھا اور اپنے گھٹنے کو آپ کے گھٹنے سے لگا لیا، اپنی ہتھیلیاں آپ کی رانوں پر رکھی، پھر کہا: محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، رمضان کے روزے رکھنا، اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرنا“، وہ بولا: آپ نے سچ فرمایا، ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ خود ہی آپ سے سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر بولا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا“۱؎۔ وہ بولا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے“۲؎۔ وہ بولا: اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا“۔ اس نے کہا: اچھا تو مجھے اس کی نشانی بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک یہ کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎۔ دوسرے یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس اور بکریاں چرانے والے بڑے بڑے محل تعمیر کریں گے“۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں تین (دن) تک ٹھہرا رہا ۴؎، پھر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! تم جانتے ہو پوچھنے والا کون تھا؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، وہ تمہیں تمہارے دین کے معاملات سکھانے آئے تھے“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس نے ہر اس چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر چیز اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔ ۲؎: یعنی: اگر یہ کیفیت طاری نہ ہو سکے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو تو یہ تو یقین جانو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے، اس لیے اسی کیفیت میں عبادت کرو۔ ۳؎: اس کے کئی معنی بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔ ۴؎: تین دن، تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4993
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتاہے کہ فرشتہ،انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے بھی انسانی شکل وصورت میں آسکتا ہے، لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں، وہ ان کی موجودگی میں باتیں کر سکتا ہے اور وہ اس کی باتیں سن بھی سکتے ہیں۔ (2) یہ شرعا پسندیدہ عمل ہے کہ بن سنور کر، نہا دھو کر اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہوکر علماء اورملوک وسلاطین کی مجالس میں جایا جائے۔ جبریل امین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوگوں کو ان کا دین سکھلانے او ر تعلیم دینے کے لیے ہی آئے تھے اور وہ تعلیم انھوں نےاپنے حال ومقال کے ساتھ دی ہے۔ وہ بہترین اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے۔ ان پر تھکاوٹ اور میل کچیل کے کوئی نشان نہیں تھے۔ (3) اہل علم کی مجلس میں حاضر ہونے والے شخص کے لیے یہ بھی مناسب ہے کہ لوگوں کو کسی مسئلے کی ضرورت ہے اور پوچھ نہیں رہے تو وہ خود پوچھتے تاکہ سب لوگوں کو مسئلے کا علم ہو جائے اور اس طرح ان کی دینی ضرورت پوری ہو۔ (4)”اچانک نظر پڑا“ یعنی دور سے آتا نظر نہیں آتا۔ قریب ہی دیکھا۔ پھر بالوں اور کپڑوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی گھر سےنہا دھو کر نکلا ہےمگر اسے پہچا نتا کو ئی بھی نہیں تھا۔ گویا وہ مسافر تھا۔ (5)”اپنے گھٹنے“ بے تکلفی کے انداز میں یا شاگردوں کی طرح دو زانو ہو کر بیٹھا۔ (6)”آپ کی رانو ں پر“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس صورت میں گویا اس نے اپنے آپ کواجڈ بدوی ظاہر کیا کیونکہ یہ انداز ادب کے خلاف ہے۔ (7) اس حدیث میں اسلام اورایمان کی تعریف مختلف کی گئی ہے۔ گویا لغوی مناسب کا لحاظ فرمایا - اسلام ظاہری کو کہا گیاہے اورا ایما قلبی تصدیق کو۔ ظاہر ہے لغۃ تو ان میں کچھ فرق ہے، البتہ شرعا کوئی فرق نہیں۔ (8)”حیرانی ہوئی“ کیونکہ پوچھنا دلیل ہے کہ وہ ناو اقف ہے مگر تصدیق کرنا اسے عالم ظاہر کرتا ہے۔ دراصل اس نےاپنے ہر کام میں ابہام رکھا جس سے حیرانی رہی۔ (9)”وہ تجھے دیکھ رہا ہے“ یعنی تیرے اس کو دیکھنے کا بھی یہی مقصود کہ وہ تجھے دیکھتا ہے کیو نکہ جب انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو وہ انتہائی خشوع وحضوع سے عبادت کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ بندے کو نہ دیکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے تصورسے اتنا خشوع پیدا نہیں ہوگا۔ بعض لوگوں نے یہ مطلب بیان کیاہے کہ احسان کے دو مطلب ہیں: پہلا اور اعلی ٰ تویہ ہے کہ تو عبادت میں یوں سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو سک تودوسرے او ر ادنی ٰ درجہ یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔واللہ اعلم . (10) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ورنہ ”گویا کہ،، کہنےکی ضرورت نہیں تھی۔ (11)”زیادہ علم نہیں رکھتا“ یعنی میں تجھ سے قیامت کا زیا علم نہیں رکھتا یا کوئی مسئول کسی سائل سے قیامت کا علم زیادہ نہیں رکھتا۔ مطلب یہ کہ نزول قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔ (12)”لونڈ ی مالک کو جنے“ بہت سے مطلب بیان کیے گئے ہیں۔ زیادہ مناسب مطلب یہ ہے کہ اولاد نافرمان ہو جائےگی اورماؤں سے لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔ گویا وہ اولاد نہیں، مالک ہیں۔ واللہ أعلم. (13)”اونچی اونچی عمارتیں،، یعنی غریب لوگ بہت امیر ہو جائیں گے۔ مال عام ہو جائےگا۔تنگ ظرفی کی وجہ سے مال سنبھال نہ سکیں گے۔ عمارتیں بنانے میں ضائع کر دیں گے۔ (14)”ششدر رہا“ کیو نکہ جس طرح وہ اچانک آیا تھا، اسی طرح اچانک غائب ہو گیا۔ لوگوں نےبہت تلاش کیا مگر وہ ملا۔ (15) اس حدیث کو ”جدیث جبریل“ کہتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4993