(مرفوع) اخبرنا سليمان بن سلم المصاحفي البلخي، قال: حدثنا النضر بن شميل، قال: حدثنا حماد، قال: انبانا يوسف، عن الحارث بن حاطب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلص، فقال:" اقتلوه"، فقالوا: يا رسول الله , إنما سرق، فقال:" اقتلوه"، قالوا: يا رسول الله , إنما سرق، قال:" اقطعوا يده"، قال: ثم سرق، فقطعت رجله، ثم سرق على عهد ابي بكر رضي الله عنه، حتى قطعت قوائمه كلها، ثم سرق ايضا الخامسة، فقال ابو بكر رضي الله عنه: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعلم بهذا حين، قال:" اقتلوه"، ثم دفعه إلى فتية من قريش ليقتلوه، منهم عبد الله بن الزبير، وكان يحب الإمارة، فقال: امروني عليكم فامروه عليهم فكان إذا ضرب ضربوه حتى قتلوه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُوسُفُ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَاطِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ، فَقَالَ:" اقْتُلُوهُ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّمَا سَرَقَ، فَقَالَ:" اقْتُلُوهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّمَا سَرَقَ، قَالَ:" اقْطَعُوا يَدَهُ"، قَالَ: ثُمَّ سَرَقَ، فَقُطِعَتْ رِجْلُهُ، ثُمَّ سَرَقَ عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَتَّى قُطِعَتْ قَوَائِمُهُ كُلُّهَا، ثُمَّ سَرَقَ أَيْضًا الْخَامِسَةَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِهَذَا حِينَ، قَالَ:" اقْتُلُوهُ"، ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى فِتْيَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ لِيَقْتُلُوهُ، مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَكَانَ يُحِبُّ الْإِمَارَةَ، فَقَالَ: أَمِّرُونِي عَلَيْكُمْ فَأَمَّرُوهُ عَلَيْهِمْ فَكَانَ إِذَا ضَرَبَ ضَرَبُوهُ حَتَّى قَتَلُوهُ.
حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو“، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے تو چوری کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو“۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے تو چوری کی ہے، آپ نے فرمایا: ”اس کا ہاتھ کاٹ دو“۔ اس نے پھر چوری کی تو اس کا پاؤں کاٹ دیا گیا، پھر اس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں چوری کی یہاں تک کہ چاروں ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے، اس نے پھر پانچویں بار چوری کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اسے اچھی طرح جانتے تھے کہ انہوں نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا تھا، پھر انہوں نے اسے قریش کے چند نوجوانوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اسے قتل کر دیں۔ ان میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے، وہ سرداری چاہتے تھے، انہوں نے کہا: مجھے اپنا امیر بنا لو، تو ان لوگوں نے انہیں اپنا امیر بنا لیا، چنانچہ جب چور کو انہوں نے مارا تو سبھوں نے مارا یہاں تک کہ اسے مار ڈالا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ابوہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی اس طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن کسی بھی امام کے نزدیک اس پر عمل نہیں ہے، وجہ اس کا منسوخ ہو جانا ہے جیسا کہ امام شافعی نے کہا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4980
اردو حاشہ: (1)”اسے قتل کردو“ آپ کا مقصود قتل کاحکم نہ تھا بلکہ یہ آپ کی پیش گوئی تھی کہ اس کا انجام کار قتل ہو گا، جو اس کے حق میں پوری ہوئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا ہو کہ یہ شخص باز نہیں آئے گا اور بالآخر اسے قتل کرنا پڑے گا، اس لیے آپ نے پہلی بار ہی قتل کا حکم دیا۔ صحابہ کرامؓ نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تردد اس لیے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چور کی سزا ہاتھ کاٹنا بتائی تھی۔ وہ سمجھے کہ آپ کو اس کے جرم کا صحیح اندازہ نہیں ہوا، اس لیے صحابہ نے جب اس کے جرم کی دوبارہ وضاحت کی تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ (2)”پاؤں کاٹ دیا گیا“ قرآن مجید میں چوری کی سزا میں صرف ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے، اس لیے بعض لوگ چوری کی سزا میں پاؤں کاٹنے کے قائل نہیں لیکن جمہور اہل علم پاؤں کاٹنے کے قائل ہیں کہ دوسری چوری پر بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ پھر چوری کرلے تو بایاں ہاتھ اور پھر چوری کرے تو دایاں پاؤں۔ اگر پانچویں دفعہ چوری کرے تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔بعض پانچویں دفعہ چوری پر قتل کے قائل ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ بعض اہل عمل ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کے بعد قطع کے قائل نہیں کیونکہ اس طرح وہ بالکل اپاہج ہو جائے گا اور اپنے کام کاج کے قابل نہیں رہے گا۔ نہ کھا پی سکے گا، نہ استنجا کرسکے گا اور نہ دوسرے کام ہی کر سکے گا۔ آخر یہ کام کون کرےگا؟ جمہور اہل علم کی دلیل آیت محاربہ بھی ہے۔ اس میں فسادی لوگوں کے لیے ہاتھ پاؤں کاٹنےکا صریح ذکر ہے۔ ﴿أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلٰفٍ﴾(المائدۃ: 33:5) عقلا بھی ہاتھ پاؤں کا حکم ایک ہے، لہذا جمہور کا مسلک ہی صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4980