(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا الحجاج بن منهال، قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن ابي حسان، قال: قال علي: ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء دون الناس إلا في صحيفة في قراب سيفي، فلم يزالوا به حتى اخرج الصحيفة , فإذا فيها:" المؤمنون تكافا دماؤهم يسعى بذمتهم ادناهم، وهم يد على من سواهم، لا يقتل مؤمن بكافر، ولا ذو عهد في عهده". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ إِلَّا فِي صَحِيفَةٍ فِي قِرَابِ سَيْفِي، فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَخْرَجَ الصَّحِيفَةَ , فَإِذَا فِيهَا:" الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ پوچھا، ہم نے کہا: کیا آپ کے پاس قرآن کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کو جو قرآن کی سمجھ دیدے، یا جو اس صحیفہ میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں دیت کے احکام ہیں، قیدیوں کو چھوڑنے کا بیان ہے، اور یہ حکم ہے کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4748
اردو حاشہ: (1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: 4738۔ (2)”اس تحریر میں“ اور یہ باتیں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یا اہل بیت سے خاص نہیں تھیں بلکہ عام لوگ بھی جانتے تھے۔ (3)”قیدی کو چھڑانا“ مراد وہ قیدی ہے جو کافروں کی قید میں پھنس جائے یا حکومت کی قید میں بے گناہ ہو۔ گناہ گار قیدی جو کسی جرم میں ماخوذ ہو کر قید میں ہو، اسے چھڑانا جائز نہیں، البتہ اس سے طعام ولباس یا اس کے اہل خانہ کے طعام وغیرہ کے سلسلے میں تعاون ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات بعض لوگ قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں قید ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے قرض ادا کر کے ان کو چھڑانا بھی فضیلت کی بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4748