الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
102. بَابُ : الْكَفَالَةِ بِالدَّيْنِ
102. باب: قرض کی ضمانت لینے کا بیان۔
Chapter: Taking On Another's Debt
حدیث نمبر: 4696
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا سعيد، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، ان رجلا من الانصار اتي به النبي صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فقال:" إن على صاحبكم دينا"، فقال ابو قتادة: انا اتكفل به، قال:" بالوفاء"، قال: بالوفاء.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" إِنَّ عَلَى صَاحِبِكُمْ دَيْنًا"، فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: أَنَا أَتَكَفَّلُ بِهِ، قَالَ:" بِالْوَفَاءِ"، قَالَ: بِالْوَفَاءِ.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تاکہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں، آپ نے فرمایا: تمہارے اس ساتھی پر قرض ہے، ابوقتادہ نے کہا: میں اس کی ضمانت لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا ادا کرو گے؟ کہا: جی ہاں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1962 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذي1069حارث بن ربعيصلوا على صاحبكم فإن عليه دينا
   سنن ابن ماجه2407حارث بن ربعيصلوا على صاحبكم فإن عليه دينا فقال أبو قتادة أنا أتكفل به قال النبي بالوفاء قال بالوفاء وكان الذي عليه ثمانية عشر أو تسعة عشر درهما
   سنن النسائى الصغرى1962حارث بن ربعيصلوا على صاحبكم فإن عليه دينا قال أبو قتادة هو علي قال النبي بالوفاء قال بالوفاء فصلى عليه
   سنن النسائى الصغرى4696حارث بن ربعيعلى صاحبكم دينا فقال أبو قتادة أنا أتكفل به قال بالوفاء
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4696 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4696  
اردو حاشہ:
(1) ابتدا میں آپ کا طرز عمل یہی تھا کہ اگر میت کے ذمے قرض ہوتا اور اس کے ترکے میں اس کے مطابق مال نہ ہوتا تو آپ بذات خود جنازہ نہ پڑھتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما دیتے کہ تم پڑھ لو۔ پھر جب بیت المال میں وسعت ہوگئی تو آپ نے اعلان فرما دیا کہ جو شخص مقروض فوت ہو جائے تو اس کا قرض حکومت ادا کرے گی۔ گویا حکومت کی ذمہ داری میں یہ چیز بھی شامل ہے۔
(2) میت کے قرض کی کفالت جمہور اہل علم کے نزدیک صحیح ہے۔ وہ کفیل نہ تو بعد میں انکار کر سکتا ہے نہ میت کے مال سے وصول کر سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ میت کی طرف سے کفالت کو جائز نہیں سمجھتے اگر اس نے مال نہ چھوڑا ہو، حالانکہ اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے میت کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھائے تو اس میں کیا حرج ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4696   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1962  
´مقروض آدمی کی نماز جنازہ کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کا ایک شخص لایا گیا تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ دیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھتا) کیونکہ اس پر قرض ہے، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میرے ذمہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم اس کی ادائیگی کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں میں اس کی ادائیگی کروں گا، تب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1962]
1962۔ اردو حاشیہ:
➊ پہلے پہل آپ کا معمول یہی تھا کہ مقروض میت جو ادائیگی کے لیے مال نہ چھوڑ کر فوت ہوتا، اس کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے، البتہ کوئی شخص سچے دل سے قرض ادا کرنا چاہتا تھا مگر ادا نہ کرسکا تو ایسا مجبور شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار نہیں۔ بعد میں بیت المال میں وسعت ہو گئی تو آپ جنازہ پڑھ لیتے تھے اور ادائیگی بیت المال سے فرما دیتے تھے۔ جس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: «فمن توفي من المؤمنین فترک دینا فعلي قضاوہ، ومن ترک مالا فلورئتہ» (صحیح البخاري، الکفالۃ، حدیث: 2398، و صحیح مسلم، الفرائض، حدیث: 1619) بہرحال ہر گناہ گار میت کا جنازہ ضرور ہونا چاہیے۔
➋ میت کے ذمے اگر قرض وغریہ ہو تو کوئی شخص اسے اپنے ذمے لے سکتا ہے، اور اس کی ذمہ داری قبول کی جا سکتی ہے، یہ ناجائز نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1962   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2407  
´ضمانت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھوں گا) اس لیے کہ وہ قرض دار ہے، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں اس کے قرض کی ضمانت لیتا ہوں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا ادا کرنا ہو گا، انہوں نے کہا: جی ہاں، پورا ادا کروں گا، اس پر اٹھارہ یا انیس درہم قرض تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2407]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام کےلیےجائزہےکہ کسی بڑے گناہ کےمرتکب کاجنازہ پڑھنے سےانکارکردے تاکہ دوسروں کو تنبیہ ہولیکن موجودہ حالات میں یہ کام کسی بڑے عالم ہی کوکرنا چاہیے جس کاعوام پراثرہو۔
عام ائمہ مساجد کی یہ پوزیشن نہیں کہ ان کےنماز جنازہ ادا نہ کرنےسےعوام اثرقبول کریں بلکہ منفی اثرات زیادہ ہونےکا امکان ہے، تاہم دوسرے مناسب طریقے سےتنبیہ ضرور کردیں۔

(2)
کبیرہ گناہ کےمرتکب کو بھی بلا جنازہ دفن نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
میت کی طرف سےادائیگی کی ذمہ داری اٹھا لینا درست ہےبلکہ یہ اس پراوراس کے لواحقین پراحسان ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2407   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.