(مرفوع) حدثنا قتيبة , عن مالك , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , ان معاوية باع سقاية من ذهب , او ورق باكثر من وزنها , فقال ابو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا , إلا مثلا بمثل". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَاعَ سِقَايَةً مِنْ ذَهَبٍ , أَوْ وَرِقٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا , إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ".
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے پینے کا برتن جو سونے یا چاندی کا تھا اس سے زائد وزن کے بدلے بیچا تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کی بیع سے منع فرماتے ہوئے سنا، سوائے اس کے کہ وہ برابر برابر ہوں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10953)، موطا امام مالک/البیوع 16 (33)، مسند احمد (6/448) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4576
اردو حاشہ: (1) سونے کی خرید و فروخت سونے یا چاندی کی چاندی کے عوض درست ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے برابری ہو اور سودا نقد بہ نقد ہو۔ اگر ایسا نہیں تو وہ بیع فاسد اور حرام ہے۔ (2)”برتن“ عربی میں لفظ سِقَایَة استعمال کیا گیا ہے، یعنی پانی وغیرہ پینے کا برتن۔ ویسے شریعت اسلامیہ میں سونے یا چاندی کے برتن میں کھانے پینے سے روکا گیا ہے۔ ممکن ہے انھوں نے زینت اور آرائش کے لیے خریدا ہو، یا کوئی اور مقصد بھی ہو سکتا ہے، المختصر وہ پینے کے لیے نہیں خرید سکتے۔ (3)”وزن سے زیادہ“ کیونکہ برتن میں سونے کے علاوہ اس کے بنانے کی اجرت بھی تو شامل ہے لیکن شریعت میں سونے کے بدلے سونے کی بیع میں کمی بیشی منع ہے، لہٰذا اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اگر سونے کا برتن سونے کے ساتھ ہی خریدنا ہے تو برتن کے برابر سونا دیا جائے اور اجرت الگ چاندی وغیرہ کی صورت میں دی جائے، یا ایسے برتن کا سودا چاندی کے ساتھ کیا جائے اور چاندی کے برتن کا سونے سے تاکہ اجرت بھی وصول ہو جائے اور شرعی ضابطہ بھی برقرار رہے۔ سونے اور چاندی کی باہم بیع میں کمی بیشی کی کوئی حد مقرر نہیں، اس لیے اجرت کو بھی قیمت میں آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے۔ آج کل کرنسی نوٹوں نے ایسے مسائل حل کر دیے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4576