جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ناپی کھجور کے ڈھیر کو ناپی ہوئی کھجور سے بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: دونوں کھجوریں خشک ہوں جن کو برابر برابر کے حساب سے بیچ سکتے ہیں، مگر دونوں کی ناپ معلوم ہونی چاہیئے، کیونکہ ایسی چیزوں کی خرید و فروخت میں کم و بیش ہونا جائز نہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4551
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ کھجوروں وغیرہ کا ایسا ڈھیر جس کی مقدار، یعنی اس کا وزن یا ماپ معلوم نہ ہو تو اسے معلوم مقدار والے ڈھیر کے عوض نہیں بیچا جا سکتا کیونکہ اس طرح ایک فریق کی حق تلفی ہو گی اور شرعاََ یہ حرام ہے، نیز معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس کی دو چیزوں کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں تساوی ہاتھوں ہاتھ لینے دینے کی شرط ضروری ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اگر دونوں ڈھیروں کی جنس مختلف ہو تو نا معلوم ماپ یا وزن والی ڈھیری کا سودا، معلوم و معین ماپ یا وزن والی ڈھیری سے کر دیا جائے تو یہ درست بیع ہو گی۔ اشارۃ النص سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ (3) عرب لوگ اس دور میں کھجوروں کو تولنے کی بجائے ماپا کرتے تھے جبکہ آج کل لوگ وزن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عربی میں اصل لفظ ”کیل“ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ماپنے کے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4551