الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل
The Book of al-Fara' and al-'Atirah
10. بَابُ : الْفَأْرَةِ تَقَعُ فِي السَّمْنِ
10. باب: چوہیا گھی میں گر جائے تو کیا کیا جائے؟
Chapter: If A Mouse Falls Into The Cooking Fat
حدیث نمبر: 4265
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا خشيش بن اصرم، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: اخبرني عبد الرحمن بن بوذويه، ان معمرا ذكره، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن ميمونة، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه سئل , عن الفارة تقع في السمن، فقال:" إن كان جامدا فالقوها، وما حولها، وإن كان مائعا فلا تقربوه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بُوذُوَيْهِ، أَنَّ مَعْمَرًا ذَكَرَهُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ , عَنِ الْفَأْرَةِ تَقَعُ فِي السَّمْنِ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ جَامِدًا فَأَلْقُوهَا، وَمَا حَوْلَهَا، وَإِنْ كَانَ مَائِعًا فَلَا تَقْرَبُوهُ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گر جائے؟ تو آپ نے فرمایا: اگر گھی جما ہوا ہو تو اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال پھینکو اور اگر جما ہوا نہ ہو تو تم اس کے قریب نہ جاؤ۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (شاذ) (معمر کے سوا زہری کے اکثر تلامذہ اس کو بغیر تفصیل کے روایت کرتے ہیں جیسے پچھلی دونوں روایتوں میں ہے)»

وضاحت:
۱؎: سند اور علم حدیث کے قواعد کے لحاظ سے یہ حدیث درجہ میں پہلی حدیث سے کم تر ہے، اور اس کے مخالف ہونے کی وجہ سے شاذ ہے، لیکن پہلی حدیث کے مضمون ہی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسی قسم کے گھی کا اردگرد ہو سکتا ہے جو جامد ہو، اور اگر سیال (بہنے والا) ہو تو اس کا اردگرد کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی لیے بہت سے علماء اس حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: شاذ

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (3843) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 353

   صحيح البخاري5538عبد الله بن عباسألقوها وما حولها وكلوه
   صحيح البخاري235عبد الله بن عباسألقوها وما حولها فاطرحوه وكلوا سمنكم
   صحيح البخاري236عبد الله بن عباسخذوها وما حولها فاطرحوه
   صحيح البخاري5540عبد الله بن عباسألقوها وما حولها وكلوه
   جامع الترمذي1798عبد الله بن عباسألقوها وما حولها وكلوه
   سنن أبي داود3841عبد الله بن عباسألقوا ما حولها وكلوا
   سنن النسائى الصغرى4263عبد الله بن عباسألقوها وما حولها وكلوه
   سنن النسائى الصغرى4265عبد الله بن عباسإن كان جامدا فألقوها وما حولها وإن كان مائعا فلا تقربوه
   سنن النسائى الصغرى4264عبد الله بن عباسخذوها وما حولها فألقوه
   بلوغ المرام654عبد الله بن عباس ألقوها وما حولها وكلوه
   مسندالحميدي314عبد الله بن عباسألقوها وما حولها وكلوه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4265 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4265  
اردو حاشہ:
چوہا مرنے سے پلید ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی وہ حرام جانور ہے لیکن اگر گھی جما ہوا ہو تو اس کی نجاست سارے گھی میں سرایت نہیں کرے گی، لہٰذا چوہے کے قریب والا گھی جو اس سے متاثر ہوا ہے، مثلا: اس میں آلودگی وغیرہ ہے تو چوہے سمیت باہر پھینک دیا جائے، باقی گھی پاک صاف ہے۔ اس حد تک تو اتفاق ہے لیکن اگر گھی مائع حالت میں ہے تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس حدیث کے مطابق اسے ضائع کردیا جائے گا کیونکہ وہ پلید ہوچکا ہے بعض اہل علم نے اس میں بھی پہلے طریقے پر عمل کیا ہے کہ چوہا اور اس کے ارد گرد والا گھی پھینک دیا جائے اور باقی گھی استعمال کرلیا جائے۔ ان کے نزدیک مائع چیز اس وقت تک پلید نہیں ہوتی جب تک اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ نجاست کے ساتھ بدل نہیں جاتا، لہٰذا اگر چوہے کے مرنے سے گھی (مائع) میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو وہ پلید نہیں، استعمال ہوسکتا ہے۔ اس حدیث کو وہ ضعیف کہتے ہیں (شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے شاذ قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (ضعيف سنن النسائي للألباني،رقم:4271) لیکن امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ بہر صورت مائع میں امکان ہے کہ چوہا مرنے کے بعد اس میں تیرتا رہا ہو۔ اس صورت میں پورا گھی اس کا ماحول قرار دیا جائے گا، اس لیے سار گھی ہی ضائع کرنا ہوگا۔ ویسے بھی مائع میں چوہے کے قریبی گھی کا تعین مشکل ہے، اس لیے جمہور اہل علم کا مسلک ہی احتیاط کے قریب ہے، اسے ہی اختیار کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4265   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 236  
´ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ فَأْرَةٍ سَقَطَتْ فِي سَمْنٍ؟ فَقَالَ: " خُذُوهَا وَمَا حَوْلَهَا فَاطْرَحُوهُ "، قَالَ مَعْنٌ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ مَا لَا أُحْصِيهِ، يَقُولُ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ . . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہے کے بارے میں دریافت کیا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال کر پھینک دو۔ معن کہتے ہیں کہ مالک نے اتنی بار کہ میں گن نہیں سکتا (یہ حدیث) ابن عباس سے اور انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:: 236]
تشریح:
پانی کم ہو یا زیادہ جب تک گندگی سے اس کے رنگ یا بو یا مزہ میں فرق نہ آئے، وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ ائمہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جن لوگوں نے قلتین یا دہ در دہ کی قید لگائی ہے ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔ «حديث الماءطهور لاينجسه شئي» اس بارے میں بطور اصل کے ہے۔ مردار جانوروں کے بال اور پر ان کی ہڈیاں جیسے ہاتھی دانت وغیرہ یہ پانی وغیرہ میں پڑ جائیں تو وہ پانی وغیرہ ناپاک نہ ہو گا۔ حضرت امام بخاری قدس سرہ کا منشائے باب یہی ہے۔ بعض علماء نے یہ فرق ضرور کیا ہے کہ گھی اگر جما ہوا ہو تو بقیہ گھی استعمال میں آ سکتا ہے اور اگر پگھلا ہوا سیال ہو تو سارا ہی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ یہ اس صورت میں کہ چوہا اس میں گر جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 236   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5538  
5538. سیدنا میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی تو اس کے متعلق نبی ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے (چوہیا کو) اور اس کے ارد گرد والا گھی پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔ سفیان سے کہا گیا کہ معمر اس حدیث کو امام زہری سے بیان کرتے ہیں انہیں سعید بن مسیب نے ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے یہ حدیث امام زہری سے صرف عبید اللہ کے واسطے سے سنی ہے ان سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں میں نے یہ حدیث ان سے بارہا سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5538]
حدیث حاشیہ:
معمر کی روایت کو ابوداؤد نے نکالا۔
اسماعیلی نے سفیان سے نقل کیا، انہوں نے کہا میں نے زہری سے یہ حدیث کئی بار یوں ہی سنی ہے ''عن عبداللہ عن ابن عباس عن میمونة'' کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالیں۔
یہ ہر آدمی کی رائے پر منحصر ہے اگر پتلا گھی یا تیل ہو تو ایک روایت میں یوں ہے کہ اسے تین چلو نکال دیں مگر یہ روایت ضعیف ہے۔
اب جو تیل یا گھی کھانے کے کام کا نہ رہا اس کا جلانا درست ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اگر گھی پتلا ہو تو اسے اور کام میں لائے مگر کھانے میں اسے استعمال نہ کرو۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین میں سے ہیں جو سنہ7ھ عمرۃ القضاء کے موقع پر نکاح نبوی میں آئیں اور اتفاق دیکھیئے کہ اسی جگہ بعد میں ان کا انتقال ہوا۔
یہ آپ کی آخری بیوی ہیں جن سے یہ منقول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5538   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 236  
236. حضرت میمونہ ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے سوال ہوا کہ چوہا اگر گھی میں گر پڑے تو کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو پھینک دو۔ حضرت معن کہتے ہیں: امام مالک نے ہمیں کئی مرتبہ یہ حدیث بیان کی اور وہ یوں کہتے تھے: عن ابن عباس عن ميمونة رضى الله عنها [صحيح بخاري، حديث نمبر:236]
حدیث حاشیہ:
پانی کم ہو یا زیادہ جب تک گندگی سے اس کے رنگ یا بو یا مزہ میں فرق نہ آئے، وہ ناپاک نہیں ہوتا۔
ائمہ اہل حدیث کایہی مسلک ہے جن لوگوں نے قلتین یادہ دردہ کی قید لگائی ہے ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔
حدیث:
الماء طھور لاینجسه شيئ اس بارے میں بطور اصل کے ہے۔
مردار جانوروں کے بال اور پر ان کی ہڈیاں جیسے ہاتھی کے دانت وغیرہ یہ پانی وغیرہ میں پڑجائیں تو وہ پانی وغیرہ ناپاک نہ ہوگا۔
حضرت امام بخاری قدس سرہ کا منشائے باب یہی ہے۔
بعض علماء نے یہ فرق ضرور کیا ہے کہ گھی اگرجما ہوا ہو تو بقیہ گھی استعمال میں آسکتا ہے اور اگر پگھلا ہوا سیال ہو تو سارا ہی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔
یہ اس صورت میں کہ چوہا اس میں گر جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 236   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3841  
´گھی میں چوہیا گر جائے تو کیا کیا جائے؟`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی، آپ نے فرمایا: (جس جگہ گری ہے) اس کے آس پاس کا گھی نکال کر پھینک دو اور (باقی) کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3841]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ارد گرد کا گھی جہاں تک متاثر ہو اسے نکالنے کے بعد باقی گھی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اگلی دونوں احادیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی فرق بیان کیا گیا ہے۔
محدثین بلکہ امام بخاری نے آگے آنے والی حدیث کو کئی علل اور اوہام کے حوالے سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
لیکن اکثر فقہاء نے یہی کہا ہےکہ گھی جما ہوا ہو تو ارد گرد کے گھی سمیت چوہا نکال کر باقی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر پگھلا ہوا ہو تو اسے کھانے میں استعمال نہ کیا جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بھی یہی ہے۔
بعض محدثین نے گھی یاتیل چاہے پگھلا ہوا ہو۔
اس میں اردگرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
خوردنی تیل ملائشیا وغیرہ سے بڑے بڑے بحری جہازوں میں آتا ہے۔
ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل بسیرا بنا کر رہتے ہیں اگر ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
امام بخاری کی رائے بھی اس کی مؤید ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3841   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1798  
´گھی میں مری ہوئی چوہیا کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے اور جو کچھ چکنائی اس کے اردگرد ہے اسے پھینک دو ۱؎ اور (بچا ہوا) گھی کھا لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1798]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جمی ہوئی چیز ہو،
اور اگر سیال ہے تو پھر پورے کو پھینک دیاجائے گا۔

2؎:
معمر کی مذکورہ روایت مصنف عبد الرزاق کی ہے،
معمر ہی کی ایک روایت نسائی میں (رقم: 4265) میمونہ سے بھی ہے جس میں سیال اور غیر سیال کا فرق ابوہریرہ ہی کی روایت کی طرح ہے،
سند اور علم حدیث کے قواعد کے لحاظ سے اگرچہ یہ دونوں روایات متکلم فیہ ہیں،
لیکن ایک مجمل روایت ہی میں نسائی کا لفظ ہے سمن جامد (جماہوا گھی) اور یہ سند صحیح ہے،
بہر حال اگر صحیحین کی مجمل روایت ہی کو لیا جائے تو بھی ارد گرد اسی گھی کا ہوسکتا ہے جو جامد ہو،
سیال میں ارد گرد ہو ہی نہیں سکتا،
کیوں کہ چوہیا اس میں گھومتی رہے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1798   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:314  
فائدہ:
اس حدیث میں اس صورت کا بیان ہے کہ اگر گھی منجمد (جما ہوا) ہو تو اس جگہ سے اور اردگرد سے تھوڑا سا گھی پھینک دیا جائے، باقی کو کھایا جا سکتا ہے لیکن اگر گھی مائع ہے تو اس تمام گھی کو بہا دیا جائے گا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ چو ہا نا پاک ہے، اور حرام بھی ہے۔ بعض لوگ اپنے ہوٹلوں میں چوہے کا قیمہ بنا کر سموسوں وغیرہ میں ڈالتے ہیں، جو کہ کبیرہ گناہ ہے، اور مسلمانوں سے دھوکا ہے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں میں اپنا ڈر پیدا فرمائے، آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 314   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:235  
235. حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ سے ایک چوہیا کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: اسے نکال دو اور اس کے قریب جس قدر گھی ہو اسے بھی پھینک دو، پھر اپنا باقی گھی استعمال کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:235]
حدیث حاشیہ:

سنن نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ چوہیا جمے ہوئے گھی میں گرجائے۔
(سنن نسائي، الفرع والعتیرة، حديث: 4263)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ وہ چوہیا گھی میں گرنے کے بعد اس میں مر جائے۔
(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث: 5538)
سنن ابی داود میں مزید وضاحت ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
اگرچوہا گھر میں گرجائے، اگرگھی جما ہوا ہے تو چوہے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دواور اگرگھی سیال ہے تو اس کے پاس مت جاؤ۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842)
حدیث بخاری سے صرف جامد کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے، سیال کا نہیں کیونکہ اگر سیال میں نجاست گرے گی تو اس کے آس پاس کے حصے کا تعین کرنا اور پھینکنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس طرف سے بھی اسے الٹنا چاہیں گے اس کی جگہ فوراً دوسرے حصے پیچھے سے آجائیں گے اور وہ بھی اردگرد کے حصے بن جائیں گے یہاں تک کہ پورے کو پھینکنا پڑے گا اور القائے ماحول (اردگرد کے پھینکنے)
کا حکم صرف جامد میں جاری ہو سکتا ہے، سیال اشیاء میں یہ حکم جاری نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ حدیث بخاری اپنے الفاظ اور منطوق کے لحاظ سے سیال اور جامد کے فرق پر دلالت نہیں کرتی، تاہم اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے جامد اور سیال کا فرق بتلارہی ہے۔
حدیث بخاری کے مفہوم مذکور کی تائید ابوداؤد کی حدیث ابی ہریرہ ؓ (نمبر3842)
اور سنن نسائی کی حدیث میمونہ (نمبر 4264)
کے منطوق سے بھی ہوتی ہے۔

امام بخاری ؒ کے قائم کردہ ایک عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جامد اورسیال کا کوئی فرق نہیں، چنانچہ کتاب الذبائح والصید میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں:
(باب إذا وقعت الفأرة في السمن الجامد أو الذائب)
جب جامد یا سیال گھی میں چوہیا گرجائے۔
اس کے تحت انھوں نے حدیث میمونہ ذکر کی ہے، نیز انھوں نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے سوال ہواکہ اگر کوئی بھی جاندار(چوہیا وغیرہ)
گھی یاتیل میں گرجائے، وہ جامد ہو یا سیال تو کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے فرمایا:
ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھی میں گرنے والی چوہیا کے متعلق فرمایا کہ اسے اور اس کے آس پاس والے گھی کو پھینک دو۔
اسے پھینک دیا گیا باقی ماندہ کو استعمال کرلیا گیا۔
(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث: 5539)
لیکن امام زہری ؒ کے اس ضابطے پر اعتراض ہوتا ہے کہ القاء ماحول جامد میں تو ہوسکتا ہے، لیکن سیال میں کیسے اس پر عمل کیا جائے گا؟ امام بخاری ؒ نے روایت:
اگر وہ سیال ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ۔
کو معلول قراردیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں ان کے قول کا حوالہ دیا ہے۔
(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1798)
بہرحال اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ا گرگھی، شہد، دودھ اور پانی وغیرہ میں نجاست گرجائے تو دیکھا جائے اگرجامد ہے تونجاست اور اس کے ماحول کو باہر پھینک دیا جائے اور باقی قابل استعمال ہے اور اگرسیال ہے تو اسے پھینک دیا جائے اور استعمال نہ کیاجائے۔
واللہ أعلم۔

محدثین کرام کا ان احادیث کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مسانید ابن عباس ؓ ہیں یا ان کا شمار مسانید حضرت میمونہ ؓ میں ہے؟ امام بخاری ؒ نے دونوں کے آخر میں فیصلہ دیا ہے کہ اصل حدیث ابن عباس ؓ عن میمونہ ؓ ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ کے واسطے سے لیا ہے اور یہ مسانید حضرت میمونہ ؓ سے ہے۔
حضرت معن نے بارہا اس روایت کو امام مالک سے عن ابن عباس عن میمونہ ؓ کے طریق سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 235   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:236  
236. حضرت میمونہ ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے سوال ہوا کہ چوہا اگر گھی میں گر پڑے تو کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو پھینک دو۔ حضرت معن کہتے ہیں: امام مالک نے ہمیں کئی مرتبہ یہ حدیث بیان کی اور وہ یوں کہتے تھے: عن ابن عباس عن ميمونة رضى الله عنها [صحيح بخاري، حديث نمبر:236]
حدیث حاشیہ:

سنن نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ چوہیا جمے ہوئے گھی میں گرجائے۔
(سنن نسائي، الفرع والعتیرة، حديث: 4263)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ وہ چوہیا گھی میں گرنے کے بعد اس میں مر جائے۔
(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث: 5538)
سنن ابی داود میں مزید وضاحت ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
اگرچوہا گھر میں گرجائے، اگرگھی جما ہوا ہے تو چوہے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دواور اگرگھی سیال ہے تو اس کے پاس مت جاؤ۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842)
حدیث بخاری سے صرف جامد کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے، سیال کا نہیں کیونکہ اگر سیال میں نجاست گرے گی تو اس کے آس پاس کے حصے کا تعین کرنا اور پھینکنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس طرف سے بھی اسے الٹنا چاہیں گے اس کی جگہ فوراً دوسرے حصے پیچھے سے آجائیں گے اور وہ بھی اردگرد کے حصے بن جائیں گے یہاں تک کہ پورے کو پھینکنا پڑے گا اور القائے ماحول (اردگرد کے پھینکنے)
کا حکم صرف جامد میں جاری ہو سکتا ہے، سیال اشیاء میں یہ حکم جاری نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ حدیث بخاری اپنے الفاظ اور منطوق کے لحاظ سے سیال اور جامد کے فرق پر دلالت نہیں کرتی، تاہم اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے جامد اور سیال کا فرق بتلارہی ہے۔
حدیث بخاری کے مفہوم مذکور کی تائید ابوداؤد کی حدیث ابی ہریرہ ؓ (نمبر3842)
اور سنن نسائی کی حدیث میمونہ (نمبر 4264)
کے منطوق سے بھی ہوتی ہے۔

امام بخاری ؒ کے قائم کردہ ایک عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جامد اورسیال کا کوئی فرق نہیں، چنانچہ کتاب الذبائح والصید میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں:
(باب إذا وقعت الفأرة في السمن الجامد أو الذائب)
جب جامد یا سیال گھی میں چوہیا گرجائے۔
اس کے تحت انھوں نے حدیث میمونہ ذکر کی ہے، نیز انھوں نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے سوال ہواکہ اگر کوئی بھی جاندار(چوہیا وغیرہ)
گھی یاتیل میں گرجائے، وہ جامد ہو یا سیال تو کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے فرمایا:
ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھی میں گرنے والی چوہیا کے متعلق فرمایا کہ اسے اور اس کے آس پاس والے گھی کو پھینک دو۔
اسے پھینک دیا گیا باقی ماندہ کو استعمال کرلیا گیا۔
(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث: 5539)
لیکن امام زہری ؒ کے اس ضابطے پر اعتراض ہوتا ہے کہ القاء ماحول جامد میں تو ہوسکتا ہے، لیکن سیال میں کیسے اس پر عمل کیا جائے گا؟ امام بخاری ؒ نے روایت:
اگر وہ سیال ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ۔
کو معلول قراردیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں ان کے قول کا حوالہ دیا ہے۔
(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1798)
بہرحال اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ا گرگھی، شہد، دودھ اور پانی وغیرہ میں نجاست گرجائے تو دیکھا جائے اگرجامد ہے تونجاست اور اس کے ماحول کو باہر پھینک دیا جائے اور باقی قابل استعمال ہے اور اگرسیال ہے تو اسے پھینک دیا جائے اور استعمال نہ کیاجائے۔
واللہ أعلم۔

محدثین کرام کا ان احادیث کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مسانید ابن عباس ؓ ہیں یا ان کا شمار مسانید حضرت میمونہ ؓ میں ہے؟ امام بخاری ؒ نے دونوں کے آخر میں فیصلہ دیا ہے کہ اصل حدیث ابن عباس ؓ عن میمونہ ؓ ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ کے واسطے سے لیا ہے اور یہ مسانید حضرت میمونہ ؓ سے ہے۔
حضرت معن نے بارہا اس روایت کو امام مالک سے عن ابن عباس عن میمونہ ؓ کے طریق سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 236   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5540  
5540. سیدہ میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا: جو گھی میں گر گئی تھی تو آپ نے فرمایا: اسے (چوہیا کو) اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5540]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اس کا حکم ایک ہے کہ متاثرہ گھی پھینک دیا جائے اور باقی کھا لیا جائے۔
اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ بھی جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق نہیں کرتے، نیز ان کے نزدیک گھی اور غیر گھی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
(2)
حدیث میں اگرچہ گھی کا ذکر ہے لیکن تیل وغیرہ کو اس پر قیاس کیا گیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق کیا گیا ہے، الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب گھی میں چوہیا گر جائے تو اگر وہ جما ہوا ہو تو چوہیا اور اس کے ارد گرد کے گھی کو پھینک دو اور اگر پگھلا ہوا ہو تو اس کے قریب نہ جاؤ۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ ان کی بیان کردہ احادیث کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔
اکثر محدثین نے گھی یا تیل، چاہے پگھلا ہوا ہو، اس میں ارد گرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
آج کل باہر سے کھانے والے تیل برآمد کیے جاتے ہیں۔
ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل طور پر رہائش پذیر رہتے ہیں۔
اگر بھرے ہوئے جہاز میں ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف وزنی معلوم ہوتا ہے کہ جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی کا فرق نہ کیا جائے۔
کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالا جائے، یہ ہر آدمی کی صوابدید پر موقوف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ اگر گھر جما ہوا نہ ہو تو تین چلو نکالے جائیں (مجمع الزوائد: 287/1، رقم: 1591)
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 828/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5540   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.