(مرفوع) اخبرنا عمران بن يزيد بن خالد، قال: حدثنا إسماعيل بن عبد الله هو ابن سماعة، قال: انبانا الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن عائشة، وعن عمرو بن سعد، عن نافع، عن ابن عمر، ان عمر سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الغسل من الجنابة، واتسقت الاحاديث على هذا:" يبدا فيفرغ على يده اليمنى مرتين او ثلاثا، ثم يدخل يده اليمنى في الإناء فيصب بها على فرجه ويده اليسرى على فرجه فيغسل ما هنالك حتى ينقيه، ثم يضع يده اليسرى على التراب إن شاء، ثم يصب على يده اليسرى حتى ينقيها، ثم يغسل يديه ثلاثا ويستنشق ويمضمض ويغسل وجهه وذراعيه ثلاثا ثلاثا، حتى إذا بلغ راسه لم يمسح وافرغ عليه الماء". فهكذا كان غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما ذكر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ سَمَاعَةَ، قال: أَنْبَأَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ عَمْرِو بْنِ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَاتَّسَقَتِ الْأَحَادِيثُ عَلَى هَذَا:" يَبْدَأُ فَيُفْرِغُ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ يُدْخِلُ يَدَهُ الْيُمْنَى فِي الْإِنَاءِ فَيَصُبُّ بِهَا عَلَى فَرْجِهِ وَيَدُهُ الْيُسْرَى عَلَى فَرْجِهِ فَيَغْسِلُ مَا هُنَالِكَ حَتَّى يُنْقِيَهُ، ثُمَّ يَضَعُ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى التُّرَابِ إِنْ شَاءَ، ثُمَّ يَصُبُّ عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى حَتَّى يُنْقِيَهَا، ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ ثَلَاثًا وَيَسْتَنْشِقُ وَيُمَضْمِضُ وَيَغْسِلُ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، حَتَّى إِذَا بَلَغَ رَأْسَهُ لَمْ يَمْسَحْ وَأَفْرَغَ عَلَيْهِ الْمَاءَ". فَهَكَذَا كَانَ غُسْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذُكِرَ.
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل جنابت کے متعلق سوال کیا، اس جگہ دونوں احادیث (عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی) متفق ہو جاتی ہیں کہ آپ (غسل) شروع کرتے تو پہلے اپنے داہنے ہاتھ پر دو یا تین بار پانی ڈالتے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کرتے، اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ شرمگاہ پر ہوتا، تو جو گندگی وہاں ہوتی دھوتے یہاں تک کہ اسے صاف کر دیتے، پھر اگر چاہتے تو بایاں ہاتھ مٹی پر ملتے، پھر اس پر پانی بہا کر صاف کر لیتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوتے، ناک میں پانی ڈالتے، کلی کرتے اور اپنا چہرہ اور دونوں بازووں تین تین مرتبہ دھوتے، یہاں تک کہ جب اپنے سر کے پاس پہنچتے تو اس کا مسح نہیں کرتے، اس کے اوپر پانی بہا لیتے، تو اسی طرح جیسا کہ ذکر کیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل (جنابت) ہوتا تھا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 422
422۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث کو دو صحابی بیان کر رہے ہیں حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، نیز دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کی بابت روایات آئی ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ تمام روایات (ان دو صحابہ سے بھی اور دیگر صحابہ سے بھی) اس بیان پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسل کی ابتدا استنجا اور وضو سے فرماتے تھے۔ ➋ اس حدیث کے آخری الفاظ: «فَهَكَذَا كَانَ غُسْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔ الخ» بھی امام نسائی رحمہ اللہ کے ہیں، حدیث کا حصہ نہیں۔ ➌ سب سے پہلے دایاں ہاتھ تب دھونا ہے اگر اس پر نجاست لگی ہو یا وہ مشکوک ہو۔ ➍ ”اگر چاہے“ گویا مٹی پر ہاتھ ملنا ضرورت کی بنا پر ہے۔ اگر نجاست سے لیس دار ہو تو لیس دور کرنے کے لیے مٹی پر مل لے ورنہ کوئی ضروری نہیں۔ آج کل صابن مٹی کے قائم مقام ہے۔ ➎ ”مسح نہ کرے“ کیونکہ سر دھونا تو مسح بے فائدہ ہو گا۔ کسی بھی حدیث میں غسل کے دوران میں صراحتاً مسح کرنے کا ذکر نہیں ہے، البتہ یہ الفاظ ہیں: «توضا وضوءہ للصلاة غیر رجلیه»”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز والا وضو کیا سوائے اپنے پاؤں کے، یعنی پاؤں نہیں دھوئے۔“ ان الفاظ سے کوئی سمجھ سکا ہے کہ مسح کرنا چاہیے مگر یہاں استثنا دھوئے جانے والے اعضاء کے لحاظ سے ممکن ہے اور یہی درست ہے۔ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے «لَمْ يَمْسَحْ»”مسح نہ کرے۔“ جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح منقول ہے، کبھی مسح کر لیتے اور کبھی چھوڑ دیتے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔ جبکہ مسح کرنے کی تائید بظاہر ان الفاظ سے ہوتی ہے: «توضا وضوءہ للصلاة غیر رجلیه» بہرحال غسل جنابت میں پہلے وضو کرتے وقت سر کا مسح کرنا ضروری نہیں۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 422