(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، عن وكيع، عن مسعر، وسفيان، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن ابيه، قال: سمعت ابن عمر، يقول: لان اصبح مطليا بقطران احب إلي من ان اصبح محرما انضخ طيبا، فدخلت على عائشة فاخبرتها بقوله، فقالت" طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فطاف على نسائه ثم اصبح محرما". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: لَأَنْ أُصْبِحَ مُطَّلِيًا بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنَضَخُ طِيبًا، فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرْتُهَا بِقَوْلِهِ، فَقَالَتْ" طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ عَلَى نِسَائِهِ ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں (اپنے جسم پر) تارکول مل لوں یہ میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں اس حال میں احرام باندھوں کہ میرے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہو، تو (محمد بن منتشر کہتے ہیں) میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور میں نے انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی یہ بات بتائی تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی، اور آپ نے اپنی بیویوں کا چکر لگایا ۱؎ آپ نے محرم ہو کر صبح کی (اس وقت آپ کے جسم پر خوشبو کا اثر باقی تھا)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 417
417۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت کے ایک طریق میں «ینضخ طیبا» یعنی جب آپ غسل کر کے احرام باندھتے تھے تو آپ سے خوشبو کی مہک آرہی ہوتی تھی۔ کے الفاظ مروی ہیں۔ دیکھیے، حدیث431۔ ➋ مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی جائے اس کے بعد باوجود غسل کرنے کے اس کی مہک ختم نہ ہو تو کیا یہ چیز احرام کے منافی ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اسے منافی سمجھتے تھے، مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واضح فرمایا کہ احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے۔ احرام سے قبل لگائی ہوئی خوشبو کی مہک ممنوع نہیں کیونکہ بسا اوقات باوجود دھونے اور غسل کے مہک ختم نہیں ہوتی، لہٰذا محرم معذور ہو گا۔ اس کے ذمے غسل کرنا تھا، وہ اس نے کر لیا۔ مہک ختم نہ ہو تو اس کا کوئی قصور نہیں اور یہی بات شرع کے اصول و مقاصد سے مناسبت رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بھی اسی کا موید ہے۔ ➌ چونکہ یہ باب احرام سے خاص نہیں بلکہ عام غسل سے متعلق ہے، لہٰذا باب کا مقصود یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غسل کے لیے ضروری نہیں کہ مبالغے کے ساتھ مل مل کر دھویا جائے کہ جسم کو لگی ہوئی چیزوں کے اثرات بھی ختم ہو جائیں بلکہ سادہ پانی بہا لینا کافی ہے۔ کوئی جگہ خشک نہ رہے اور نجاست زائل ہو جائے۔ ویسے امام مالک رحمہ اللہ نے غسل میں ”دلک“ یعنی ملنے کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ پانی ہر جگہ پہنچ سکے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 417