الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
60. بَابُ : مَقَامِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فِي بَيْتِهَا حَتَّى تَحِلَّ
60. باب: جس کا شوہر مر جائے وہ حلال ہونے تک اپنے گھر ہی میں عدت گزارے۔
Chapter: The Woman Whose Husband Has Died Staying In Her House Until It Becomes Permissible For Her To Remarr
حدیث نمبر: 3559
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن يزيد بن محمد، عن سعد بن إسحاق، عن عمته زينب بنت كعب، عن الفريعة بنت مالك ," ان زوجها تكارى علوجا ليعملوا له، فقتلوه، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالت: إني لست في مسكن له، ولا يجري علي منه رزق، افانتقل إلى اهلي، ويتاماي، واقوم عليهم؟ قال:" افعلي، ثم قال: كيف قلت؟ فاعادت عليه قولها، قال: اعتدي حيث بلغك الخبر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبٍ، عَنْ الْفُرَيْعَةِ بِنْتِ مَالِكٍ ," أَنَّ زَوْجَهَا تَكَارَى عُلُوجًا لِيَعْمَلُوا لَهُ، فَقَتَلُوهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: إِنِّي لَسْتُ فِي مَسْكَنٍ لَهُ، وَلَا يَجْرِي عَلَيَّ مِنْهُ رِزْقٌ، أَفَأَنْتَقِلُ إِلَى أَهْلِي، وَيَتَامَايَ، وَأَقُومُ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ:" افْعَلِي، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ قُلْتِ؟ فَأَعَادَتْ عَلَيْهِ قَوْلَهَا، قَالَ: اعْتَدِّي حَيْثُ بَلَغَكِ الْخَبَرُ".
فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے کچھ غلام اپنے یہاں کام کرانے کے لیے اجرت پر لیے تو انہوں نے انہیں مار ڈالا چنانچہ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنے شوہر کے کسی مکان میں بھی نہیں ہوں اور میرے شوہر کی طرف سے میرے گزران کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے تو میں اپنے گھر والوں (یعنی ماں باپ) اور یتیموں کے پاس چلی جاؤں اور ان کی خبرگیری کروں؟ آپ نے فرمایا: ایسا کر لو، پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ نے فرمایا: کیسے بیان کیا تم نے (ذرا ادھر آؤ تو)؟ تو میں نے اپنی بات آپ کے سامنے دہرا دی۔ (اس پر) آپ نے فرمایا: جہاں رہتے ہوئے تمہیں اپنے شوہر کے انتقال کی خبر ملی ہے وہیں رہ کر اپنی عدت کے دن بھی پوری کرو۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذي1204كبشة بنت مالكامكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله
   سنن أبي داود2300كبشة بنت مالكامكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله قالت فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا
   سنن ابن ماجه2031كبشة بنت مالكامكثي في بيتك الذي جاء فيه نعي زوجك حتى يبلغ الكتاب أجله
   سنن النسائى الصغرى3558كبشة بنت مالكاجلسي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله
   سنن النسائى الصغرى3559كبشة بنت مالكاعتدي حيث بلغك الخبر
   سنن النسائى الصغرى3560كبشة بنت مالكامكثي في أهلك حتى يبلغ الكتاب أجله
   سنن النسائى الصغرى3562كبشة بنت مالكامكثي في بيتك أربعة أشهر وعشرا حتى يبلغ الكتاب أجله
   بلوغ المرام952كبشة بنت مالك‏‏‏‏امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب اجله
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3559 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3559  
اردو حاشہ:
فریعہ سابقہ روایت میں ان کا نام فارعہ بیان کیا گیا ہے۔ کوئی اختلاف نہیں فریعہ فارعہ کی تصغیر ہے۔ انہیں دونوں طرح پکارا جاتا تھا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْها وَأَرْضَاها۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3559   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 952  
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدہ فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس کا شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ فریعہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کیونکہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی گھر نہیں چھوڑا اور نہ ہی نفقہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! (تم اپنے میکے جا سکتی ہو) جب میں حجرے میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی اور فرمایا تم اپنے پہلے مکان ہی میں اس وقت تک رہو جب تک کہ تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے۔ فریعہ کا بیان ہے کہ میں نے پھر عدت کی مدت چار ماہ دس دن اسی سابقہ مکان میں پوری کی۔ فرماتی ہیں کہ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے بعد اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ اسے احمد اور چاروں نے بیان کیا ہے۔ ترمذی، ذھلی، ابن حبان اور حاکم وغیرہم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 952»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في المتوفي عنها تنتقل، حديث:2300، والترمذي، الطلاق واللعان، حديث:1204، والنسائي، الطلاق، حديث:3559، وابن ماجه، الطلاق، حديث:2031، وأحمد:6 /370، وابن حبان (الإحسان): 6 /248، حديث:4279، والحاكم:2 /208.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ جس خاتون کا شوہر وفات پا جائے ‘ وہ اسی مکان میں عدت پوری کرے گی جس میں وہ خاوند کے ساتھ رہائش پذیر تھی اور جہاں اسے خاوند کی وفات کی اطلاع موصول ہوئی ہے، وہاں سے کسی اور مکان میں منتقل نہیں ہو سکتی۔
محققین علماء کا یہی مذہب ہے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ دوسری جگہ منتقل ہونا بھی اس کے لیے جائز ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت فُرَیعہ بنت مالک بن سنان خُدْریہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ مشہور صحابی ٔرسول حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں۔
بیعت رضوان میں حاضر تھیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 952   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3558  
´جس کا شوہر مر جائے وہ حلال ہونے تک اپنے گھر ہی میں عدت گزارے۔`
فارعہ بنت مالک رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر (بھاگے ہوئے) غلاموں کی تلاش میں نکلے (جب وہ ان کے سامنے آئے) تو انہوں نے انہیں قتل کر دیا۔ (شعبہ اور ابن جریج کہتے ہیں: اس عورت کا گھر دور (آبادی کے ایک سرے پر) تھا، وہ عورت اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے گھر کے الگ تھلگ ہونے کا ذکر کیا (کہ وہاں گھر والے کے بغیر عورت کا تنہا رہنا ٹھیک نہیں ہے) آپ نے اسے (وہاں سے ہٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3558]
اردو حاشہ:
(1) معلوم ہوا کہ عدت وفات میں عورت کے لیے خاوند کے گھر ٹھہرنا ضروری ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے مگر حضرت علی‘ ابن عباس‘ عائشہ اور جابررضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ وہ جہاں سے چاہے عدت گزارسکتی ہے مگر یہ صحیح حدیث صراحتاً وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ شدید ضرورت کے تحت گھر سے نکل سکتی ہے‘ لیکن کام سے فارغ ہو کر فوراً گھر لوٹے۔ رات باہر مت گزارے۔ واللہ أعلم۔
(2) دودراز گھر آبادی سے یا عورت کے رشتہ داروں سے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3558   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3560  
´جس کا شوہر مر جائے وہ حلال ہونے تک اپنے گھر ہی میں عدت گزارے۔`
فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے شوہر اپنے (بھاگے ہوئے کچھ) غلاموں کی تلاش میں نکلے تو وہ قدوم کے علاقے میں قتل کر دیئے گئے، چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اپنے گھر والوں کے پاس منتقل ہو جانے کی خواہش ظاہر کی اور آپ سے (وہاں رہنے کی صورت میں) اپنے کچھ حالات (اور پریشانیوں) کا ذکر کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (منتقل ہو جانے کی) اجازت دے دی۔ پھر میں جانے لگی تو آپ نے م [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3560]
اردو حاشہ:
اپنے اسی گھر میں ٹھہری رہ وہ گھر اگرچہ خاوند کی ملکیت نہیں تھا مگر اس کونکالا بھی نہیں جا رہا تھا‘ البتہ اگر گھر سے نکال دیا جائے یا گھر گرپڑے یا خطرہ ہو تو عورت منقل ہوسکتی ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3560   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3562  
´شوہر کے انتقال کی خبر والے دن سے عورت کی عدت کے شمار کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر کا قدوم (بستی) میں انتقال ہو گیا تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو بتایا کہ میرا گھر (بستی سے) دور (الگ تھلگ) ہے (تو میں اپنے ماں باپ کے گھر عدت گزار لوں؟) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ پھر انہیں بلایا اور فرمایا: اپنے گھر ہی میں چار مہینے دس دن رہو یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3562]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں باب پر دلالت کرنے والے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عدت وفات سے شروع ہوگی نہ کہ خبر ملنے سے۔ عقلاً ونقلاً یہی بات صحیح ہے۔ قرآن وحدیث میں وفات کا ذکر ہے نہ کہ خبر ملنے کا۔ ابن عمر‘ ابن مسعود‘ ابن عباس رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔ ائمہ میں سے امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد‘ امام اسحاق رحمہم اللہ اور اصحاب الرائے وغیرہ کا یہی موقف ہے۔ دوسرا موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے‘ نیز حسن بصری‘ قتادہ اور عطاء خراسانی وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے جو کہ درست نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3562   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2300  
´کیا شوہر کی موت کے بعد عورت دوسرے گھر منتقل ہو سکتی ہے؟`
زینب بنت کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا وہ قبیلہ بنی خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا کر رہ سکتی ہیں؟ کیونکہ ان کے شوہر جب اپنے فرار ہو جانے والے غلاموں کا پیچھا کرتے ہوئے طرف القدوم نامی مقام پر پہنچے اور ان سے جا ملے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤں؟ کیونکہ انہوں نے مجھے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2300]
فوائد ومسائل:
واجب ہے کہ عورت اپنی عدت اسی مکان میں گزارے جہاں شوہر کی وفات ہو ئی ہو الا یہ کہ کوئی انتہائی اضطراری صورت مانع ہو، مثلا اس مکان میں رہنا ممکن نہ ہو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2300   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2031  
´شوہر کی وفات کے بعد بیوہ عدت کے دن کہاں گزارے؟`
زینب بنت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہما جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے شوہر اپنے کچھ غلاموں کی تلاش میں نکلے اور ان کو قدوم کے کنارے پا لیا، ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا، میرے شوہر کے انتقال کی خبر آئی تو اس وقت میں انصار کے ایک گھر میں تھی، جو میرے کنبہ والوں کے گھر سے دور تھا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے شوہر کی موت کی خبر آئی ہے اور میں اپنے کنبہ والوں اور بھائیوں کے گھروں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2031]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  عورت کو عدت اسی مکان میں گزارنی چاہیے جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔

(2)
  خاوند کی وفات پر عدت چار مہینے دس دن ہے۔
اور اگر عورت حاملہ ہو تو عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش)
ہے اگرچہ خاوند کی وفات کے چند لمحے بعد ہی ولادت ہو جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2031   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.