سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
23. بَابُ : الطَّلاَقِ بِالإِشَارَةِ الْمَفْهُومَةِ
23. باب: سمجھ میں آنے والے اشارہ سے طلاق کے حکم کا بیان۔
Chapter: Divorce With A Clear Gesture
حدیث نمبر: 3466
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو بكر بن نافع، قال: حدثنا بهز، قال: حدثنا حماد بن سلمة، قال: حدثنا ثابت، عن انس، قال:" كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم جار فارسي طيب المرقة، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وعنده عائشة، فاوما إليه بيده ان تعال، واوما رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عائشة اي وهذه، فاوما إليه الآخر هكذا بيده ان لا، مرتين او ثلاثا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَارٌ فَارِسِيٌّ طَيِّبُ الْمَرَقَةِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعِنْدَهُ عَائِشَةُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ تَعَالَ، وَأَوْمَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ أَيْ وَهَذِهِ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الْآخَرُ هَكَذَا بِيَدِهِ أَنْ لَا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی تھا جو اچھا شوربہ بناتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں، اس نے آپ کو اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بلایا، آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: کیا انہیں بھی لے کر آؤں، اس نے ہاتھ سے اشارہ سے منع کیا دو یا تین بار کہ نہیں ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ کوئی اشارۃً طلاق دے اور معلوم ہو جائے کہ طلاق دے رہا ہے تو طلاق پڑ جائے گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 19 (2037)، (تحفة الأشراف: 335)، مسند احمد (3/123، 272) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح م نحوه وزاد قال رسول الله لا ثم عاد يدعوه فقال رسول الله وهذه قال نعم في الثالثة فقاما يتدافعان حتى أتيا منزله

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3466 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3466  
اردو حاشہ:
(1) گونگے بھی دنیا میں بستے ہیں۔ ان کی بھی شادیاں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی طلاق کی ضرورت پڑسکتی ہے اور وہ عموماً اشارے ہی سے بات کرتے ہیں‘ لہٰذا لازمی بات ہے کہ اشارہ معتبر ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اشارہ واضح ہونا چاہیے جس سے مقصود صاف سمجھ میں آئے۔ عام آدمی بھی اشاروں سے باتیں کرلیتے ہیں‘ لہٰذا اشارہ معتبر ہوگا‘ خواہ گونگا کرے یا کوئی دوسرا فرد بشرطیکہ اشارہ واضح ہو۔
(2) رسول اللہﷺ کا حضرت عائشہؓ کو ساتھ لے جانے پر اصرار شاید اس وجہ سے تھا کہ حضرت عائشہؓ کو بھی بھوک لگی تھی۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ کھانے میں اپنے آپ کو ان پر ترجیح دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی علامت ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: ساتھی [وَشِبْعُ الْفَتٰی لُؤْمٌ اِذا جَاعَ صَاحِبُهُ] ساتھی بھوکا ہو تو اپنا پیٹ بھرا ہونا قابل ملامت ہے۔ اور فارسی کا انکار شاید اس وجہ سے تھا کہ شوربہ صرف آپ کی کفایت کرسکتاتھا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3466   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.