(مرفوع) اخبرنا قتيبة قال حدثنا حماد عن ابي هاشم عن ابي مجلز عن الحرث بن نوفل عن عائشة قالت: كنت افرك الجنابة وقالت مرة اخرى المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم . (مرفوع) أخبرنا قتيبة قال حدثنا حماد عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن الحرث بن نوفل عن عائشة قالت: كنت أفرك الجنابة وقالت مرة أخرى المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت مل کر صاف کر دیتی ۱؎، دوسری مرتبہ کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی مل کر صاف کر دیتی تھی ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خشک ہو تو اسے کھرچ دینے یا مل دینے، اور تر ہو تو کسی چیز سے صاف کر دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے، منی پاک ہے یا ناپاک اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے، امام شافعی، داود ظاہری، اور امام احمد کی رائے میں منی پاک ہے، وہ منہ کے لعاب کی طرح ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے علی، سعد بن ابی وقاص، ابن عمر اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مسلک ہے، اس کے برعکس امام مالک اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ منی ناپاک ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک منی اگر خشک ہو تو کھُرچ دینے سے پاک ہو جاتی ہے، دھونا ضروری نہیں، اس کے برعکس امام مالک کے نزدیک خشک ہو یا تر دونوں صورتوں میں دھونا ضروری ہے، منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل کھرچنے والی حدیثیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ منی اگر نجس ہوتی تو کھرچنے کے بعد اسے دھونا ضروری ہوتا، اور جن لوگوں نے ناپاک کہا ہے ان کی دلیل وہ روایتیں ہیں جن میں دھونے کا حکم آیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ منی اگر پاک ہوتی تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن جو لوگ پاک کہتے ہیں وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کپڑے کا دھونا نظافت کے لیے ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ ۲؎: بظاہر اوپر والی روایت میں اور اس روایت میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ «فرک»(ملنے اور رگڑنے) والی روایتیں خشک منی پر محمول ہوں گی کیونکہ منی جب گیلی ہو تو ملنے سے صاف نہیں ہو گی، اور دھونے والی روایتیں تر منی پر۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 297
297۔ اردو حاشیہ: گویا منی کوئی بول و براز جیسی چیز نہیں ہے کہ اس کا ذرہ ذرہ کپڑے سے نکلنا چاہیے بلکہ کپڑے کو آپس میں رگڑ دیا جائے یا اسے کھرچ دیا جائے، جو گر جائے، گر جائے اور جو کپڑے کے ریشوں میں رہ جائے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس حدیث سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے موافقین کے موقف کی تائید ہوتی ہے، یعنی جو منی کی طہارت کے قائل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 297