(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان، قال: حدثنا الوليد، عن حنظلة، قال: رايت طاوسا يمر بالركن، فإن وجد عليه زحاما مر ولم يزاحم، وإن رآه خاليا قبله ثلاثا، ثم قال: رايت ابن عباس فعل مثل ذلك" , وقال ابن عباس: رايت عمر بن الخطاب فعل مثل ذلك، ثم قال: إنك حجر لا تنفع ولا تضر ولولا اني" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك، ما قبلتك" , ثم قال عمر:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ حَنْظَلَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ طَاوُسًا يَمُرُّ بِالرُّكْنِ، فَإِنْ وَجَدَ عَلَيْهِ زِحَامًا مَرَّ وَلَمْ يُزَاحِمْ، وَإِنْ رَآهُ خَالِيًا قَبَّلَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ" , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ حَجَرٌ لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ، مَا قَبَّلْتُكَ" , ثُمَّ قَالَ عُمَرُ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ".
حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کو دیکھا وہ رکن (یعنی حجر اسود) سے گزرتے، اگر وہاں بھیڑ پاتے تو گزر جاتے کسی سے مزاحمت نہ کرتے، اور اگر خالی پاتے تو اسے تین بار بوسہ لیتے، پھر کہتے: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ایسا ہی کرتے دیکھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے انہوں نے اسی طرح کیا، پھر کہا: بلاشبہ تو پتھر ہے، تو نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10503) (ضعیف) (اس کے راوی ”ولید“ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، لیکن میں صرف ”تین بار“ کا لفظ منکر ہے)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2941
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا ضروری نہیں۔ اگر بھیڑ ہو تو دھکم پیل کی بجائے اشارہ کر کے گزر جائے۔ اگر آسانی سے بوسہ دے سکے تو بوسہ دے دے۔ یہ حج یا طواف کا رکن نہیں، لہٰذا بوسہ کے لیے مار دھاڑ کرنا یا دھکم پیل کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان گناہوں کی معافی کی بجائے گناہوں کی گٹھڑی اٹھا کر رخصت ہو۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دفعہ بوسہ دینا مسنون ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 2939 کا فائدہ نمبر:1۔ (3)”تو ایک پتھر ہے۔“ باوجود جنت میں سے ہونے کے بہر صورت ہے تو پتھر ہی، معبود نہیں۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تمام بت توڑ کر ایک بت باقی رکھ لیا۔ عوام الناس یا نو مسلم حضرات ایسا گمان کر سکتے تھے۔ (4)”نفع دے سکتا ہے نہ نقصان“ حدیث میں ہے کہ حجر اسود قیامت کے روز آئے گا۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس جس نے بھی اسے حق کے ساتھ چھوا ہوگا اس کے حق میں گواہی دے گا۔ دیکھیے: (مناسك الحج والعمرة، للألباني، ص: 21) یہ بھی تو نفع ہی ہے؟ حالانکہ اس قسم کی گواہی تو دنیا کی ہر چیز دے گی، مثلاً: جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے، وہاں تک ہر جن وانس، حجر وشجر اس کے لیے گواہی دیں گے، تو کیا ہر جن وانس شجر وحجر نافع اور ضار بن گیا؟ ہرگز نہیں! یہ گواہی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔ اس کا نفع نقصان سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو صرف گواہی دیں گے۔ نفع ونقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ورنہ یہ چیزیں گواہی دینے ہی پر کیوں اکتفا کرتیں؟ بلکہ نفع نقصان دیتیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2941