(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن غيلان بن جرير، عن عبد الله بن معبد الزماني، عن ابي قتادة، قال: قال عمر: يا رسول الله! كيف بمن يصوم الدهر كله؟ قال:" لا صام ولا افطر، او لم يصم ولم يفطر"، قال: يا رسول الله! كيف بمن يصوم يومين ويفطر يوما؟ قال:" او يطيق ذلك احد"، قال: فكيف بمن يصوم يوما ويفطر يوما؟ قال:" ذلك صوم داود عليه السلام"، قال: فكيف بمن يصوم يوما ويفطر يومين؟ قال:" وددت اني اطيق ذلك"، قال: ثم قال:" ثلاث من كل شهر ورمضان إلى رمضان هذا صيام الدهر كله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟ قَالَ:" لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ، أَوْ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ:" أَوَ يُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ"، قَالَ: فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ:" ذَلِكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام"، قَالَ: فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ:" وَدِدْتُ أَنِّي أُطِيقُ ذَلِكَ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ هَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ".
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو صیام الدھر رکھتا ہو؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزے رکھے، اور نہ ہی افطار کیا“۔ (راوی کو شک ہے «لاصيام ولا أفطر» کہا، یا «لم يصم ولم يفطر» کہا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کیا اس کی کوئی طاقت رکھتا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: (اچھا) اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے“، انہوں نے کہا: اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ نے فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ میں اس کی طاقت رکھوں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھنا، اور رمضان کے روزے رکھنا یہی صیام الدھر ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2389
اردو حاشہ: ”کیا کوئی شخص اس کی طاقت رکھ سکتا ہے؟“ مقصد کراہت کا اظہار ہے کہ ساری زندگی طاقت نہ رکھے گا۔ آخر اس عمل کو چھوڑنا پڑے گا، لہٰذا یہ درست نہیں۔ (مزید دیکھئے حدیث: 2387)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2389