(موقوف) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: سمعت ابا سلمة يحدث، عن عائشة، قالت:" إن كان ليكون علي الصيام من رمضان، فما اقضيه حتى يجيء شعبان". (موقوف) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" إِنْ كَانَ لَيَكُونُ عَلَيَّ الصِّيَامُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَقْضِيهِ حَتَّى يَجِيءَ شَعْبَانُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھ پر رمضان کے روزہ ہوتے تھے تو میں قضاء نہیں کر پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم40 (1950)، صحیح مسلم/الصوم26 (1146)، سنن ابی داود/الصوم40 (2399)، سنن ابن ماجہ/الصوم13 (1696)، (تحفة الأشراف: 17777)، موطا امام مالک/الصوم20 (54)، مسند احمد 6/124، 179 (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2321
اردو حاشہ: گویا دس ماہ بعد شعبان میں سابقہ رمضان المبارک کے رہ جانے والے روزوں کی قضا ادا کرتی تھیں۔ اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرض روزوں کی قضا ادا کرنا فوراً ضروری نہیں، سارے سال میں کسی بھی وقت قضا ادا کرنا ممکن ہے، لیکن جلدی قضا کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہی افضل ہے بیماری یا موت کا کوئی پتا ہے؟ وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ کو قضا ادا کرنا معاف نہیں بلکہ وہ روزے بہر صورت بعد میں رکھنے ہوں گے۔ حضرت عائشہؓ سے قضا ادا کرنے کی تاخیر کا سبب بھی منقول ہے کہ ایسا نہ ہو، نبی اکرمﷺ کو میری ضرورت محسوس ہو اور میں روزے سے ہوں۔ شعبان میں رسول اللہﷺ بھی اکثر روزے سے ہوتے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث: 2180)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2321