(مرفوع) اخبرنا الربيع بن سليمان، قال: انبانا ابن وهب، قال: انبانا عمرو، وذكر آخر، عن ابي الاسود، عن عروة، عن ابي مراوح، عن حمزة بن عمرو، انه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: اجد في قوة على الصيام في السفر فهل علي جناح؟ قال:" هي رخصة من الله عز وجل، فمن اخذ بها فحسن، ومن احب ان يصوم فلا جناح عليه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَمْرٌو، وَذَكَرَ آخَرَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَجِدُ فِيَّ قُوَّةً عَلَى الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ؟ قَالَ:" هِيَ رُخْصَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَنْ أَخَذَ بِهَا فَحَسَنٌ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَصُومَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ".
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میں اپنے اندر سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں، تو کیا (اگر میں روزہ رکھوں تو) مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ عزوجل کی جانب سے رخصت ہے، تو جس نے اس رخصت کو اختیار کیا تو یہ اچھا ہے، اور جو روزہ رکھنا چاہے تو اس پر کوئی حرج نہیں“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2305
اردو حاشہ: مندرجہ بالا روایت میں رسول اللہﷺ سے صراحتاً ثابت ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا، نہ رکھنا برابر ہے۔ ہر مسافر اپنے حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ اگر مشقت نہ ہو تو فرض روزہ رکھ لینا بہتر اور افضل ہے کیونکہ بعد میں قضا میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے (اگرچہ نہ رکھنا بھی جائز ہے) اور اگر مشقت ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے تاکہ روزہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ نفلی روزے میں دونوں باتیں برابر ہیں۔ یہ مندرجہ بالا روایات کا خلاصہ ہے۔ اس طریقے سے تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2305