(موقوف) قال الحارث بن مسكين، قراءة عليه وانا اسمع، عن سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن ابي ايوب، قال:" من شاء اوتر بسبع , ومن شاء اوتر بخمس , ومن شاء اوتر بثلاث , ومن شاء اوتر بواحدة , ومن شاء اوما إيماء". (موقوف) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قال:" مَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ , وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ , وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ , وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ , وَمَنْ شَاءَ أَوْمَأَ إِيمَاءً".
سفیان زھری سے روایت کرتے ہیں، اور زہری عطاء بن یزید سے، اور عطاء ابوایوب سے، ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو چاہے وتر سات رکعت پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے، اور جو اشارے سے پڑھنا چاہے اشارے سے پڑھے (یعنی بیمار آدمی)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1714
1714۔ اردو حاشیہ: ➊ اختلاف یہ ہے کہ پہلی دو روایات میں مذکورہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں اور آخری دو روایات میں حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی طرف۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا اور پھر سائلین کو حدیث کے مطابق فتویٰ دیا، لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں۔ اس طرح حدیث موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح صحیح ہے۔ ➋ ”وتر حق ہے“ احناف اس لفظ سے وتر کے وجوب پر استدلال کرتے ہیں جبکہ حق کے معنی مؤکد بھی ہوتے ہیں اور یہاں یہی معنی مناسب ہیں تاک دوسری احادیث کے خلاف نہ پڑیں جو پیچھے گزر چکی ہیں، نیز لطیفہ یہ ہے کہ اسی روایت میں وتر کے ایک ہونے کا بھی صریح جواز ہے مگر احناف اس کے قائل نہیں۔ متحمل الفاظ سے استدلال اور صریح الفاظ سے اعراض حق پسندی نہیں۔ ➌ ”اشارے سے پڑھ لے“ ایک نسخے میں «من شاء» کے بجائے «من غلب» کے لفظ ہیں، یعنی جو قیام و قعود سے مغلوب ہو، وہ اشارے سے پڑھ لے۔ جمہور علماء اسے مریض پر محمول کرتے ہیں کہ جو کھڑا ہونے اور بیٹھنے کی طاقت نہ رکھت ہو۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 18؍86)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1714