الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
The Book of Forgetfulness (In Prayer)
105. بَابُ : إِذَا قِيلَ لِلرَّجُلِ هَلْ صَلَّيْتَ هَلْ يَقُولُ لاَ
105. باب: جب کسی آدمی سے پوچھا جائے ”تم نے نماز پڑھی؟“ تو کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ ”نہیں؟“۔
Chapter: If it is said to a man "Have you prayed?" Should he say "No"?
حدیث نمبر: 1367
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود , ومحمد بن عبد الاعلى , قالا: حدثنا خالد وهو ابن الحارث، عن هشام، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله، ان عمر بن الخطاب يوم الخندق بعد ما غربت الشمس , جعل يسب كفار قريش , وقال: يا رسول الله , ما كدت ان اصلي حتى كادت الشمس تغرب , فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فوالله ما صليتها" , فنزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بطحان فتوضا للصلاة وتوضانا لها , فصلى العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ , جَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ , وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا كِدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ , فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَوَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا" , فَنَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا , فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن سورج ڈوب جانے کے بعد کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو رسول اللہ نے فرمایا: قسم اللہ کی! میں نے بھی نہیں پڑھی ہے، چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بطحان میں اترے، پھر آپ نے نماز کے لیے وضو کیا، اور ہم نے بھی وضو کیا پھر آپ نے سورج ڈوب جانے کے باوجود (پہلے) عصر پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 36 (596)، 38 (598)، الأذان 26 (641)، الخوف 4 (945)، المغازي 29 (4112)، صحیح مسلم/المساجد 36 (631)، سنن الترمذی/الصلاة 18 (180)، (تحفة الأشراف: 3150) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري945جابر بن عبد اللهنزل إلى بطحان فتوضأ وصلى العصر بعد ما غابت الشمس ثم صلى المغرب بعدها
   صحيح البخاري641جابر بن عبد اللهنزل النبي إلى بطحان وأنا معه فتوضأ ثم صلى يعني العصر بعد ما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب
   صحيح البخاري4112جابر بن عبد اللهنزلنا مع النبي بطحان فتوضأ للصلاة وتوضأنا لها فصلى العصر بعدما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب
   سنن النسائى الصغرى1367جابر بن عبد اللهنزلنا مع رسول الله إلى بطحان فتوضأ للصلاة وتوضأنا لها فصلى العصر بعد ما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1367 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1367  
1367۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد دراصل کچھ فقہاء کے اس خیال کی تردید ہے کہ اگر نماز نہ پڑھی ہو تو یوں نہ کہے: میں نے نماز نہیں پڑھی۔ بلکہ یوں کہے: ابھی پڑھنی ہے۔ کیونکہ پہلے جملے میں کچھ بے نیازی سی جھلکتی ہے، جب کہ دوسرے جملے میں اپنی کوتاہی کا اعتراف اور تلافی کا عزم ہے۔ امام صاحب کا خیال ہے کہ اس طرح بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے۔
➋ فوت شدہ نمازوں کی جماعت کرانا مشروع ہے، نیز اگر فوت شدہ نمازیں ایک سے زیادہ ہوں تو انہیں ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1367   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 641  
641. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ یہ گفتگو روزے دار کے روزہ افطار کرنے کے بعد ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی نماز نہیں پڑھ سکا۔ چنانچہ آپ نیچے اترے اور وادی بطحان میں چلے، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے وضو کیا اور آفتاب غروب ہونے کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی [صحيح بخاري، حديث نمبر:641]
حدیث حاشیہ:
یہ باب لاکر امام بخاری ؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ کا ردکیاہے۔
جنھوں نے یہ کہنا مکروہ قرار دیا کہ یوں کہاجائے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ابراہیم نے یہ کہنا اس شخص کے لیے مکروہ جانا جو نماز کا انتظار کررہاہو۔
کیونکہ وہ گویا نماز ہی میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 641   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 945  
945. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ تشریف لائے اور کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تاآنکہ سورج غروب کے قریب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھ سکا ہوں۔ اس کے بعد آپ وادی بطحان میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:945]
حدیث حاشیہ:
باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔
قسطلانی ؒ نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔
یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
وقيل:
أخرها عمداً؛ لأنه كانت قبل نزول صلاة الخوف، ذهب إليه الجمهور، كما قال ابن رشد، وبه جزم ابن القيم في الهدي، والحافظ في الفتح، والقرطبي في شرح مسلم، وعياض في الشفاء، والزيلعي في نصب الراية، وابن القصار. وهذا هو الراجح عندنا. (مرعاة المفاتیح، ج: 2، ص318)
یعنی کہا گیا (شدت جنگ کی وجہ سے)
آپ ﷺ نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔
بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 945   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:641  
641. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ یہ گفتگو روزے دار کے روزہ افطار کرنے کے بعد ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی نماز نہیں پڑھ سکا۔ چنانچہ آپ نیچے اترے اور وادی بطحان میں چلے، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے وضو کیا اور آفتاب غروب ہونے کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی [صحيح بخاري، حديث نمبر:641]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ بعض اوقات ایک ایسا عنوان قائم کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ اس عنوان کے متعلق کہا جاتا ہے لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
قبل ازیں حضرت ابن سیرین ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا تھا کہ وہ ان الفاظ کو ناپسند کرتے ہیں کہہماری نماز رہ گئی۔
اسی طرح امام ابراہیم نخی ؒ کہتے ہیں کہہم نے نماز نہیں پڑھی کہنا مکروہ ہے کیونکہ یہ ایک قسم کی بے اعتنائی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت ایسے الفاظ ادا کرنے میں چند حرج نہیں۔
اگرچہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے یہ الفاظ استعمال نہیں فرمائے، لیکن ان کا مقولہ مفہوم اور نتیجے کے اعتبار سے (ما صليت)
میں نے نماز نہیں پڑھی ہی کے معنی دے رہا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کا محل استدلال ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں جس میں وضاحت کے ساتھ حضرت عمر ؓ نے (ما صليت)
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
(صحیح البخاري، صلاة الخوف، حدیث: 945)
مذکورہ روایت میں بھی رسول اللہ ﷺ نے (ما صليت)
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
(2)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخارى ؒ اللہ اس سے تہذیب الفاظ کا سبق دینا چاہتے ہیں لیکن اگر استدلال رسول اللہ ﷺ کے ارشاد (والله ما صليتها)
سے ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔
علامہ ابن بطال ؒ نے حضرت امام نخعی ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے اس قسم کے الفاظ اس شخص کے لیے مکروہ خیال کیے ہیں جو نماز کے انتظار میں ہو کیونکہ حدیث کے مطابق نماز کا انتظار کرنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے، اس لیے اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی، کیونکہ اس سے ایک ایسی چیز کا انکار لازم آتا ہے جسے شریعت نے ثابت کیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 267/1)
ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ ایسے الفاظ کا استعمال اس شخص کے لیے جائز قرر یتے ہوں جو بھول کر نماز چھوڑ بیٹھا ہو یا کسی ہنگامی اور جنگی حالات کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہو، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابراہیم نخعی ؒ بھی علي الاطلاق اس کی کراہت کے قائل نہیں ہیں۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 641   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:945  
945. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ تشریف لائے اور کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تاآنکہ سورج غروب کے قریب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھ سکا ہوں۔ اس کے بعد آپ وادی بطحان میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:945]
حدیث حاشیہ:
(1)
غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصر مؤخر کر دینے کی کئی ایک وجوہات ممکن ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ سہو و نسیان کی بنا پر ایسا ہوا کہ نماز پڑھنے کا خیال نہ آیا۔
٭ درج ذیل وجوہات کی بنا پر دانستہ ایسا کیا-
٭ جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔
٭ حالات کی سنگینی کی وجہ سے وضو کا وقت میسر نہ آ سکا۔
٭ نماز خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک نماز خوف کے احکام نازل ہو چکے تھے لیکن جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز باجماعت یا الگ الگ پڑھنے کا موقع نہ مل سکا اور نہ اشارے ہی سے پڑھنے کی قدرت تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر کو مؤخر کر دیا۔
(2)
اس سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے اگر نماز باجماعت پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو الگ الگ ہر شخص اشارے سے پڑھ لے۔
اگر اشارے سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جائے۔
ایسے حالات میں تسبیح، تحلیل اور تکبیر وغیرہ نماز ادا کرنے کے قائم مقام نہیں ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 945   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4112  
4112. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں تو نماز نہیں پڑھ سکا تا آنکہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے بھی نماز عصر نہیں پڑھی۔ اس کے بعد ہم نبی ﷺ کے ہمراہ وادی بطحان میں ٹھہرے اور آپ نے نماز کے لیے وضو کیا تو ہم نے بھی نماز کے لیے وضو کیا۔ پھر آپ نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر پڑھی۔ پھر اس کے بعد آپ نے نماز مغرب ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4112]
حدیث حاشیہ:

صلوۃ وسطیٰ کے متعلق صراحت ہے کہ اس سے مراد نمازِعصر ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو اس نماز کے فوت ہونے کی اس قدر تکلیف تھی کہ آپ نے مشرکین پر بددعا فرمائی۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6396)
ایک روایت میں ہے:
مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا، چنانچہ آپ نے یہ تمام نمازیں ترتیب کے مطابق یکجا کرکے پڑھیں۔
(سنن النسائي، الأذان، حدیث: 663)

ان مختلف روایات سے میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جنگ خندق کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا، کسی دن پانچوں رہ گئیں اور کسی دن نمازِ عصر بروقت نہ پڑھ سکے۔
(شرح نووي: 111/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4112   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.