(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا بقية، قال: حدثنا الزبيدي , ان مكحولا حدثه، ان مسروق بن الاجدع حدثه، عن عائشة، قالت:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشرب قائما وقاعدا , ويصلي حافيا ومنتعلا , وينصرف عن يمينه وعن شماله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ , أَنَّ مَكْحُولًا حَدَّثَهُ، أَنَّ مَسْرُوقَ بْنَ الْأَجْدَعِ حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا , وَيُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا , وَيَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر، اور ننگے پاؤں اور جوتے پہن کر بھی نماز پڑھتے دیکھا ہے، اور آپ سلام پھیر نے کے بعد (کبھی) اپنے دائیں طرف پلٹتے، اور (کبھی) اپنے بائیں طرف۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1362
1362۔ اردو حاشیہ: بلاوجہ تشدد درست نہیں۔ جب دونوں طرف دلائل ہوں تو بجائے جھگڑنے اور بات کو طول دینے کے وجہ ترجیح ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بلاوجہ کسی ایک بات پر جم جانا مناسب نہیں۔ اسی طرح وہ مسائل جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں مختلف فیہ رہے اور ان پر اتفاق نہ ہو سکا، ان میں دونوں صورتوں کے جواز کا فتویٰ دیا جائے بشرطیکہ معاملہ جواز و استحباب کا ہو، وگرنہ بصورتِ تعارض جواز و اباحت پر حرمت و ممانعت کو مقدم کرنا ہی محتاط راستہ ہے، البتہ جو مسئلہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں متفق علیہ ہو، اسے مضبوطی سے پکڑا جائے کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم غلطی پر متفق نہیں ہو سکتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1362